ملک بھر سے سیاح عید قرباں منانے کیلئے کیلئے شمالی علاقہ جات پہنچنے لگے ہیں۔ بہت سے لوگ قربانی بھی یہیں کریں گے اور پر فضا مقامات پر باربی کیو پارٹیوں کا اہتمام کریں گے۔ عید سے قبل ناران، کاغان، گلیات، مری اور دیگر علاقوں میں ہوٹلوں اور گیسٹ ہائوسز میںچالیس فیصد تک بکنگ ہوچکی ہے۔ دوسری جانب سوات میں ہوٹل انڈسڑی مایوسی کا شکار ہے۔ کیونکہ مناسب انفراسٹرکچر نہ ہونے کی وجہ سے سیاح یہاں کا رخ کرنے سے گریز کر رہے ہیں۔
’’امت‘‘ کو کاغان، ناران، سوات،گلیات اور دیگر تفریحی مقامات پر ہوٹل انڈسٹری سے وابستہ ذرائع نے بتایا ہے کہ گزشتہ چار پانچ سال سے ان تفریحی مقامات پر قربانی کرنے اور قربانی کا گوشت ساتھ لا کر باربی کیو پارٹی کرنے کا ٹرینڈ ڈویلپ ہوچکا ہے۔ گزشتہ برسوں سے پنجاب اور سندھ کے شہری علاقوں سے کئی خاندان عید قرباں کی چھٹیاں پہاڑی مقامات پر گزارتے ہیں۔ اس کیلئے وہ عید سے ایک یا دو دن پہلے شمالی علاقہ جات پہنچ جاتے ہیں۔ قریب سے آنے لوگ قربانی کیلئے مال مویشی اپنے ساتھ لاتے ہیں، جبکہ دور دراز سے آنے والے سیاح مقامی لوگوں ہی سے قربانی کا جانور خریدتے ہیں۔ اس طرح مقامی لوگوںکو بھی مناسب روزگار دستیاب ہوجاتا ہے۔ آنے والے لوگ اپنی ضرورت کا گوشت رکھ کر باقی تقسیم کر دیتے ہیں۔ ذرائع کا کہنا تھا کہ قربانی کا گوشت پکانے اور بار بی کیو کیلئے ہوٹلوں میں خصوصی انتظامات کئے جاتے ہیں۔ اگر سیاح چاہیں تو قربانی کے گوشت سے مزیدار ڈشیں ہوٹل والوں سے تیار کرا لیں، اور اگر چاہیں تو وہ خود بھی اپنی مدد آپ کے تحت تیار کر سکتے ہیں۔ عام طور پر سیاح خود ہی قربانی کے گوشت سے ڈشیں تیار کرتے ہیں۔ عید کا پہلا روز تو ان کا قربانی اور پھر شام کو بار بی کیو میں صرف ہوتا ہے۔ جبکہ عید کے دوسرے اور تیسرے روز سیاح اپنے ساتھ گوشت لے کر مختلف مقامات پر روانہ ہوجاتے ہیں، جہاں پر وہ بار بی کیو پارٹی وغیرہ کرتے ہیں۔ مقامی ذرائع کا کہنا تھا کہ قربانی کرنے والے سیاح عید کے تیسرے اور چوتھے روز واپس اپنے گھروں کو روانہ ہوتے ہیں۔ بڑی تعداد ایسے سیاحوں کی بھی ہے جو اپنے گھروں اور علاقوں میں قربانی کرتے ہیں اور اپنے ہمراہ گوشت لے کر تفریحی مقامات پر پہچنتے ہیں۔ یہ سیاح عام طور پر اپنے ہمراہ ٹینٹ، بستر، چادریں، چولہے، گوشت پکانے اور بار بی کیو کیلئے ضروری اشیا تک اپنے ہمراہ لاتے ہیں اور عید کی شام ہوتے ہی ان کو تفریحی مقامات پر جا بجا دیکھا جاسکتا ہے۔ وہ روڈ کے کنارے اور مختلف مقامات پر بار بی کیو اور گوشت وغیرہ پکاتے نظر آتے ہیں۔ رات گئے تک ان من چلے سیاحوں سے تفریحی علاقوں میں رش ہو جاتا ہے اور یہ موج مستی کرنے کے بعد عید کے دوسرے اور تیسرے روز واپس اپنے علاقوں میں جاتے ہیں۔
کاغان ناران ہوٹل انڈسٹری ایسوسی ایشن کے صدر سیٹھ مطیع اللہ نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ ’’اب تک کاغان اور ناران میں ہوٹلوں اور گیسٹ ہائوسز میں چالیس فیصد تک بکنگ ہوچکی ہے اور یہ سلسلہ ابھی جاری ہے۔ ہوٹلوں میں بکنگ کرانے والوں میں اکثریت کا تعلق پنجاب کے علاوہ کراچی، حیدرآباد اور سندھ کے دیگر شہری علاقوں سے ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کی اکثریت کاغان اور ناران ہی میں قربانی کرتی ہے اور اس سے مقامی لوگوں کو روزگار بھی ملتا ہے۔ اس وقت کاغان اور ناران میں ہوٹلوں کے کرائے انتہائی مناسب ہوچکے ہیں۔ ایک ہزار سے چار ہزار روپے یومیہ تک کمرے مل رہے ہیں‘‘۔
دوسری جانب سوات کی ہوٹل انڈسٹری کے ذرائع کے مطابق سوات میں سڑکوںکی تباہ حالی اور مناسب سہولتیں نہ ہونے کی وجہ سے ہر سال سیاحوں کی تعداد میں کمی واقع ہو رہی ہے اور مقامی ہوٹل انڈسٹری نقصان کا شکار ہے۔ سوات کے ذرائع کے مطابق عید کے موقع پر اطراف کے علاقوں سے سیاح تو یہاں آتے ہیں، مگر دوسرے علاقوں سے لوگ سوات کا رخ نہیں کرتے۔ سوات ہوٹل ایسوسی ایشن کے صدر محمد زاہد کا کہنا تھا کہ ’’سوات کی ہوٹل انڈسٹری نقصان میں جارہی ہے۔ علاقے میں سارے روڈ تباہ حال ہیں۔ پکنگ والے علاقوں میں مناسب سہولتیں نہیں ہیں، جس کی وجہ سے سیاح اس علاقے کا رخ نہیں کررہے۔ ہر سال سیاحوں کی تعداد میں کمی ہو رہی ۔‘‘ ٭
٭٭٭٭٭