سدھارتھ شری واستو
چین کی مشرقی ریاستوں کے حکام نے مردوں کو دفنانے کے بجائے ہندوئوں کی طرز پر جلا ڈالنے کے احکامات جاری کردیئے ہیں۔ جبکہ تابوت تیار اور فروخت کرنے کا کاروبار بیک جنبش قلم ختم کر دیا گیا ہے۔ چینی حکومت کا دعویٰ ہے کہ ان کی مردے جلانے کی پالیسی سے زمینیں محفوظ ہوجائیں گی، جن کو رہائشی اور تجارتی مقاصد کیلئے استعمال کیا جائے گا۔ جبکہ مردوں کی تدفین پر پابندی کی پالیسی سے ماحولیات کو نقصان نہیں ہوگا۔ دوسری جانب چینی حکومت کی پالیسی کو بربریت سے تعبیر کیا گیا ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ یہ پالیسی قدیم چینی عقائد اور تہذیب کیخلاف ہے۔ مقامی چینی جریدے گلوبل ٹائمز نے بتایا ہے کہ جیانگ گائوں میں سینکڑوں دیہاتیوں نے حکومت کی جانب سے قبریں کھود کر اپنے والدین، بچوں اور اپنے آبا و اجداد کے تابوتوں کی بے حرمتی پر شدید احتجاج کیا ہے۔ لیکن چینی انتظامیہ اور سیکورٹی اہلکاروں نے ان دیہاتیوں کو مجبورکر دیا کہ وہ اپنے گھروں کو چلے جائیں اور قبروں کی کھدائی، لاشوں کو جلا ڈالنے اور تابوتوں کو خالی کر کے جمع کئے جانے کی مخالفت نہ کریں، بصورت دیگر ان پر گولیاں برسانے کی دھمکیاں دی گئیں۔ مقامی میڈیا سے گفتگو میں انتیس سالہ ایک چینی کسان نے روتے ہوئے بتایا کہ ان کے باپ کی قبر کھود کر لاش جلا ڈالی گئی ہے اور تابوت حکومت نے جمع کرلیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق چینی مشرقی ریاستوں میں حکام نے سیکورٹی کی مدد سے تمام تابوت فروشوں کو حکم دیا ہے کہ وہ تیار تابوت فرنیچر والوں کو فروخت کر ڈالیں ورنہ ان کوجیل بھیجا جائے گا اور ان پر بھاری جرمانے عائد کئے جائیں گے۔ جس پر لاکھوں تیار تابوتوں کو دکانداروں نے مقامی فرنیچر ساز اداروں کو فروخت کر دیا ہے۔ سائوتھ چائنا مارننگ پوسٹ نے بتایا ہے کہ چینی حکام کی جانب سے تیزی کے ساتھ گیس کی مدد سے چلائی جانے والی آگ کی بھٹیوں کی تیاری بھی کی جا رہی ہے۔ اب تک تیار کی جانے والی بھٹیوں میں مردوں کو انتہائی تیز درجہ حرارت پر منٹوں میں جلاکر ان کی راکھ منقش مرتبانوں میں ڈال کر لواحقین کے حوالہ کی جا رہی ہے۔ مرتبانوں میں اپنے پیاروں کی راکھ لینے والوں کا ماننا ہے کہ مردوں کو جلانے سے نہ صرف تکفین و تدفین کے اخراجات میں کمی آئی ہے بلکہ ان کو قبریں خریدنے اور ان کی آرائش و زیبائش اور دیکھ ریکھ پر خرچ کی جانے والی رقم بھی پس انداز کرنے میں مدد ملے گی۔ لیکن اس پورے منظر نامے میں مشرقی چین میں موجود اقلیتی مسلمانوں کیلئے بھی نت نئے مسائل کھڑے ہوگئے ہیں، جہاں ابھی تک حکام نے مسلمانوں کیلئے تدفین کی اجازت نہیں دی ہے اور مسلمان کمیونٹی، جو ان ریاستوں میں انتہائی قلیل تعداد میں موجود ہے، پریشان دکھائی دیتی ہے۔ کیونکہ مسلمان دنیا بھر میں اسلام کے آغاز اور پھیلائو کے بعد بھی اپنے مردوں کو انتہائی عقیدت و احترام سے دفناتے ہیں۔ چینی حکومت کی پالیسی کے حوالے سے دعویٰ کیا گیا ہے کہ اس پر کوئی سمجھوتا نہیں کیا جائے گا اور تمام مذاہب اور کمیونٹی کے افراد کو کہا گیا ہے کہ وہ ہر قیمت پر مردوں کو دفن کرنے کے بجائے جلا ڈالیں، ورنہ حکومت ان کیخلاف سخت ایکشن لے گی۔ ادھر چینی ریاستوں کی دفنانے کی پالیسی ختم کرکے لاش جلانے کی پالیسی اختیار کرنے کے احکامات کے بعد بتایا گیا ہے کہ متعدد شہروں اور اضلاع میں چینی حکام نے قبرستانوں کو اکھاڑ پھینکا ہے او ر یہاں دفن کی جانے والی لاشوں اور ان کے تابوتوں کو زمین سے کھود کر نکال لیا گیا ہے اور لاشوں کو جلایا گیا ہے اور تابوتوں کو متعلقہ اداروں کے حوالہ کردیا گیا ہے جو ان تابوتوں کے بارے میں فیصلہ کریں گے کہ ان کا کرنا کیا ہے؟ جریدے گلوبل ٹائمز نے دعویٰ کیا ہے کہ چینی ریاستی حکومتوں نے قبرستانوں میں لاشوں کو جلانے میں مدد دینے والے افراد کو فی تابوت دو ہزار یوآن کی رقوم دینے کی منظوری دی ہے۔ حالانکہ جلائے جانے والے مُردوں کے لواحقین نے ان تابوتوں کی خریداری کیلئے کم از کم تین ہزار یو آن فی تابوت کی رقم خرچ کی ہے۔ متعدد مقامی افراد نے چینی حکومت کی جانب سے اپنائی جانے والی مردوں کو جلانے کی پالیسی کو بے رحمانہ قرار دیا ہے۔ گلوبل ٹائمز کا کہنا ہے کہ جیانگ ژی صوبے میں ایک قبرستان سے نکالے جانے والے پانچ ہزار سے زیادہ مردے جلا ڈالے گئے ہیں اور ان کی تدفین کیلئے استعمال ہونے والے اتنے ہی تابوتوں کو مقامی پارکنگ میں رکھا ہوا ہے۔ چینی میڈیا کا کہنا ہے کہ مردے جلانے کے احکامات اور تدفین سمیت تابوتوں کی تیاری اور فروخت پر پابندی کے احکامات پر عمل کرانے کیلئے تمام علاقوں اور اضلاع میں سیکورٹی اور انتظامی حکام کا کریک ڈائون جاری ہے۔
٭٭٭٭٭