عمران نے قریبی ساتھیوں کو احتساب کے لئے پیش نہیں کیا

نجم الحسن عارف
کرپشن کے خلاف اعلان جہاد کرنے والے نومنتخب وزیراعظم عمران خان کے لئے اپنے ہی قریبی ساتھی سب سے بڑی آزمائش بن گئے۔ وزیر اعظم کے اہم ساتھی علیم خان کے خلاف نیب میں معاملات چل رہے ہیں، لیکن اس کے باوجود ان کا پی ٹی آئی میں نہ صرف اہم کردار جاری رکھا ہوا ہے، بلکہ پنجاب میں وزارت دیئے جانے کا امکان بھی اب تک پارٹی نے مسترد نہیں کیا۔ جبکہ پنجاب اسمبلی کے نومنتخب اسپیکر چوہدری پرویز الٰہی کو بھی نیب میں جاری انکوائری کے باوجود اس اہم پارلیمانی منصب پر فائز کر دیا گیا ہے۔ جہانگیر ترین جن پر تقریباً 25 سال پہلے جعلی ڈی اے پی بنانے کا الزام لگا تھا، وہ بھی عدالت عظمیٰ سے نااہل ہونے کے باوجود پی ٹی آئی قیادت اور وزیر اعظم عمران خان کے اہم ترین مشیروں اور ساتھیوں میں شامل ہیں۔ پارٹی میں بھی ایسے لوگوں کو نوازے رکھنے اور ان سے فاصلہ پیدا نہ کرنے پر کارکنوں میں سخت پریشانی پائی جاتی ہے۔ ذرائع کے مطابق عمران خان نے احتساب سے متعلق اپنی تمام تر تقاریر اور دعوئوں کے باوجود اب تک اپنی صرف اپنے آپ کو احتساب کے لئے پیش کیا ہے۔ اپنے اردگرد موجود قریبی ساتھیوں کو احتساب کے لئے نہیں پیش کیا، حتیٰ کہ ان اہم رہنمائوں اور پارٹی قائدین کے بارے میں بھی ایسا کچھ نہیں کہا، جن کے بارے میں نیب، انسداد کرپشن کے دوسرے اداروں یا عدالتوں میں معاملات و مقدمات چل رہے ہیں۔ بلکہ یہ بھی اعلان نہیں کیا ہے کہ جن پارٹی رہنمائوں یا اتحادی جماعتوں کے رہنمائوں کے خلاف نیب یا کسی عدالت میں کوئی کیس موجود ہے، ان رہنمائوں کو اس وقت تک کسی حکومتی عہدے پر فائز نہیں کیا جائے گا، نہ ہی ان کے نام مختلف عہدوں کے لئے زیر غور لائے جائیں گے۔
’’امت‘‘ کے ذرائع کے مطابق تحریک انصاف میں الیکشن میں کامیابی سے پہلے تو یہ طے تھا کہ پارٹی کے کسی کرپٹ رہنما یا عہدیدار کے خلاف مقدمات دائر ہوئے تو پارٹی چیئرمین اور پارٹی اس کے ساتھ کھڑی نہیں ہو گی۔ لیکن الیکش سے پہلے الیکٹیبلز کے لئے پارٹی میں پیدا کی گئی گنجائش کے بعد سے الیکشن کے نتیجے میں حکومت سازی تک پارٹی کی کسی میٹنگ میں کوئی ایسی بات نہیں کی گئی جس سے پارٹی میں شامل کوئی کرپٹ رہنما یا چیئرمین کا انتہائی قریبی ساتھی کوئی خوف محسوس کرے۔ ذرائع کے مطابق اس احتیاط کی وجہ یہ تھی کہ الیکشن کے بعد حکومت سازی کے معاملات میں کئی اہم رہنما جس تندہی سے کام کر کے آزاد ارکان کو پارٹی میں شامل کر رہے تھے، اس میں گڑ بڑ ہو سکتی تھی۔ پی ٹی آئی کے ذرائع کے مطابق پارٹی کے پرانے لوگوں میں بھی ایسے بہت سارے لوگ ہیں، جو سمجھتے ہیں کہ عمران خان کو بطور وزیراعظم اور بطور پارٹی سربراہ صرف خود کو ہی احتساب کیلئے پیش نہیں کرنا چاہئے، بلکہ اپنی ٹیم کے دوسرے ارکان کو بالعموم اور پارٹی میں اہم کردار اور مقام کے حامل رہنمائوں کو بالخصوص احتساب کیلئے نام لے کر پیش کرنا چاہئے تھا۔ نیز پارٹی رہنمائوں کو بھی دو ٹوک باور کرانا چاہئے تھا کہ سبھی لوگ خود کو احتساب کیلئے تیار رکھیں اور جب تک ان کے معاملات نیب یا عدالتوں سے کلیئر نہیں ہوتے، خود کو پارٹی کے علاوہ حکومتی عہدوں کے لئے بھی نااہل سمجھیں۔ لیکن ان ذرائع کے مطابق پارٹی چیئرمین اور وزیراعظم عمران خان نے قوم سے بہترین خطاب کے باوجود پنجاب کی وزارت عظمیٰ کے منصب پر ایسی شخصیت کو فائز کیا، جن کے بارے میں متنازعہ اطلاعات بہت تیزی سے سامنے آئیں۔
پی ٹی آئی میں موجود ’’امت‘‘ کے ذرائع نے کوئٹہ سے اس امر کی تصدیق کی ہے کہ وفاقی کابینہ میں شامل کی گئی زبیدہ جلال کے خلاف بھی کرپشن کے کیسز مشرف دور سے اسی طرح چلے آ رہے ہیں اور کسی عدالتی فورم سے انہیں باضابطہ طور پر کلیئر نہیں کیا گیا۔ واضح رہے کہ زبیدہ جلال پر توانا پاکستان منصوبے میں کرپشن کا الزام عائد کیا گیا تھا۔ اس منصوبے کا مقصد بلوچستان کے انتہائی پسماندگی کے شکار علاقوں میں اسکولوں میں زیر تعلیم بچوں کو خوراک کی ضروریات مہیا کرنا تھیں اور اس کیلئے 3 ارب روپے مختص کئے گئے تھے۔ یہ منصوبہ تقریباً ساڑھے چار سال تک جاری رہنا تھا۔ ان ذرائع کے مطابق زبیدہ جلال کے خلاف اسی طرح کے الزامات کے حوالے سے سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی دور حکومت میں ایک باضابطہ انکوائری بھی کرائی جا چکی ہے، جو وزیراعظم انسپکشن ٹیم اور وزیر اعظم سیکریٹریٹ کے ریکارڈ کا حصہ ہے۔
ادھر نیب ذرائع نے ’’امت‘‘ سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس میں شبہ نہیں کہ ماضی میں حکومتیں نیب کی تحقیقات اور امور پر اثر انداز ہوتی رہی ہیں، لیکن اب کی بار چیئرمین نیب نے جس طرح کے انیشیٹیو لے رکھے ہیں، بہت کم امکان ہے کہ وہ وزیراعظم کے قریبی ساتھیوں کے بارے میں اپنی پالیسی میں کوئی نرمی لائے یا پہلے سے جاری معاملات میں کوئی کمزوری دکھائے۔ تاہم دوسری جانب نیب جس کے ہاں پی ٹی آئی پنجاب کے ذمہ دار عبدالعلیم خان پر کرپشن الزامات کی انکوائریز چل رہی ہیں، انہیں آئندہ کے لئے نیب میں بلانے کے لئے فی الحال کوئی تاریخ مقرر نہیں کی گئی ہے۔ خیال رہے کہ ان الزامات میں ہائوسنگ کالونی سے متعلق معاملات کے علاوہ علیم خان کی آف شور کمپنیاں کے معاملات بھی شامل ہیں۔ جبکہ اس سے قبل ان کے خلاف اولڈ ایج بینیفٹ (EOBI) کو تعلقات کی بنیاد پر سستے پلاٹ مہنگے داموں فروخت کرنے کا الزام بھی سامنے آ چکا ہے۔ اس معاملے میں تقریباً ایک ارب 56 کروڑ روپے کا سرکاری خزانے کو نقصان پہنچایا گیا تھا۔ دوسری جانب اسپیکر صوبائی اسمبلی پنجاب چوہدری پرویز الٰہی اور ان کے بڑے بھائی (چچیرے بھائی) چوہدری شجاعت حسین کو آمدنی سے زائد اثاثے بنانے کے الزامات کے تحت سالہا سال سے زیر انکوائری رکھا گیا ہے۔ اب بھی نیب میں ان کی پیشیاں جاری ہیں، لیکن اس کے باوجود عمران خان نے معاملات کلیئر ہونے سے پہلے ہی انہیں اعلیٰ منصب پیش کیا ہے۔
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment