امت رپورٹ
مسلم لیگ ’’ن‘‘ نے عید سے قبل نواز شریف کی رہائی کی امید پر جشن کی تیاری کر لی تھی۔ تاہم سزا معطلی کی درخواست پر محفوظ فیصلہ موخر کئے جانے کے سبب ان کی امیدوں پر پانی پھر گیا۔ اب سابق وزیر اعظم نواز شریف، ان کی بیٹی مریم اور داماد کیپٹن (ر) صفدر عیدالاضحیٰ اڈالہ جیل میں ہی منائیں گے۔
واضح رہے کہ احتساب عدالت کی جانب سے ایون فیلڈ کیس میں سنائی جانے والی سزا کے خلاف شریف خاندان نے اپیلیں کر رکھی ہیں۔ جبکہ ساتھ ہی ہائی کورٹ میں یہ درخواست بھی دی تھی کہ جب تک ان اپیلوں کا فیصلہ نہیں آجاتا سزا کو معطل کیا جائے۔
گزشتہ روز اس وقت ڈرامائی صورت حال پیدا ہو گئی جب اسلام آباد ہائی کورٹ نے شریف خاندان کی سزا معطلی کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کر لیا۔ عدالت کے احاطے میں موجود ایک مقامی لیگی رہنما کے مطابق اندر سے جج صاحبان کے آرگومنٹس اور ڈپٹی پراسیکیوٹر نیب سردار مظفر عباسی کے کمزور دلائل کی خبریں موصول ہو رہی تھیں، اور جب یہ معلوم ہوا کہ جسٹس اطہر من اللہ نے یہ کہہ کر فیصلہ محفوظ کر لیا کہ مناسب حکم نامہ جاری کیا جائے گا تو لیگی ورکرز میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ جبکہ وکلائے صفائی اور وکلائے استغاثہ احاطہ عدالت میں کیس کے فیصلے کا انتظار کرنے لگے۔ جبکہ وہاں موجود میڈیا کے نمائندے بھی کسی ’’بریکنگ نیوز‘‘ کے لئے چوکس ہو گئے۔ یہ سب آپس میں چہ میگوئیاں کر رہے تھے کہ جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس میاں گل حسن اورنگ زیب پر مشتمل دو رکنی بنچ آج ہی فیصلہ سناتا ہے یا پھر آگے کی تاریخ دیتا ہے۔ تاہم یہ انتظار اور سنسنی خیزی اس وقت ختم ہو گئی، جب کیس کا محفوظ فیصلہ موخر کر دیا گیا۔ اب یہ فیصلہ تعطیلات کے بعد سنایا جائے گا۔
مقامی لیگی رہنما کے بقول پیر کی صبح سے ہی پارٹی کے حلقوں میں یہ ڈسکشن چل رہی تھی کہ سزا معطل ہونے کی صورت میں آج نواز شریف اور دیگر اڈیالہ جیل سے باہر آ سکتے ہیں۔ چنانچہ جڑواں شہروں کی پارٹی قیادت اور ورکرز کو تیار رہنے کی ہدایت کی گئی تھی۔ جبکہ اسلام آباد میں موجود مختلف شہروں سے تعلق رکھنے والے بعض پارٹی رہنمائوں کو بھی تاکید تھی کہ کیس کی سماعت اختتام پذیر ہونے سے پہلے عید منانے کے لئے گھروں کے لئے روانہ نہ ہوں۔
ایک اعلیٰ لیگی عہدیدار نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ پارٹی کے 70 فیصد رہنمائوں نے نواز شریف، مریم اور کیپٹن (ر) صفدر کی سزا معطلی اور عید سے قبل جیل سے باہر آنے کی امید لگا رکھی تھی۔ یہ توقع، پارٹی کے قانونی ماہرین کی جانب سے دی جانے والی بریفنگ پر قائم کی گئی تھی، جن کا کہنا تھا کہ مضبوط قانونی دلائل کے سبب سزا معطلی کے نتیجے میں نواز شریف، مریم نواز اور کیپٹن (ر) صفدر کی عید سے قبل رہائی کا بہت زیادہ امکان ہے۔ کیونکہ نیب قابل اطمینان دلائل دینے میں ناکام رہا ہے۔ لیگی عہدیدار کے بقول پارٹی کے جو رہنما نواز شریف کی رہائی کا یقین کر بیٹھے تھے، انہوں نے اپنی امید کا اظہار جیل میں ملاقات کے موقع پر سابق وزیر اعظم سے بھی کیا تھا۔ حتیٰ کہ پارٹی صدر شہباز شریف خود اس پر کنوینس تھے۔ سب کی نظریں کیس کی گزشتہ سماعت پر لگی ہوئی تھیں۔ تاہم نیب کے ڈپٹی پراسیکیوٹر نے دلائل کے لئے مزید مہلت طلب کر لی۔ جس کے بعد لیگی قیادت نے پیر کی سماعت پر نظریں جما لی تھیں۔ نواز شریف کی رہائی کی امید رکھنے والے ایک رہنما سے جب ’’امت‘‘ نے ان توقعات کا سبب دریافت کیا تو ان کا کہنا تھا کہ دو رکنی بنچ میں شامل جسٹس اطہر من اللہ دوران سماعت جو آرگومنٹس دے رہے ہیں، اس سے نون لیگیوں میں خاصی امید پیدا ہو گئی ہے۔ ساتھ ہی موصوف دو رکنی بنچ میں شامل جج صاحبان کا بیک گرائونڈ بیان کرنے لگے۔ ان کا کہنا تھا ’’چیف جسٹس افتخار چوہدری کی بحالی سے متعلق وکلا تحریک میں جسٹس اطہر من اللہ بہت آگے ہوا کرتے تھے۔ وہ جسٹس غلام صفدر شاہ کے داماد ہیں۔ جنہوں نے بھٹو کی پھانسی کے فیصلے میں اختلافی نوٹ لکھ کر انہیں بے گناہ قرار دیا تھا۔ اسی طرح جسٹس اطہر من اللہ کے والد نصر من اللہ سرحد (خیبر پختون) کے چیف سیکریٹری ہوا کرتے تھے۔ سول سروس میں انہوں نے اپنا وقت بڑے دبدبے کے ساتھ گزارا۔ بد قسمتی سے وہ ایک روڈ ایکسڈینٹ میں جاں بحق ہو گئے تھے۔ اسی طرح جسٹس اطہر من اللہ کی والدہ بلقیس من اللہ نے پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر ہری پور سے کئی بار ایوب خان کے بیٹوں کے مقابلے میں الیکشن لڑا اور وہ رکن قومی اسمبلی منتخب بھی ہوئیں۔ جسٹس اطہر من اللہ ایک مضبوط اور قابل ذکر خاندانی بیک گرائونڈ رکھتے ہیں۔ جبکہ بنچ کے دوسرے رکن جسٹس میاں گل حسن اورنگ زیب بھی ایک اعلیٰ فیملی کے چشم و چراغ ہیں۔ وہ والیٔ سوات جنرل حبیب اللہ کے پوتے اور ایوب خان کے نواسے ہیں۔ والی سوات کی بہو مسرت احمد زیب ان کی تائی ہیں‘‘۔
دوسری جانب اڈیالہ جیل میں قید نواز شریف کی زیادہ توجہ اس پر نہیں کہ وہ کب رہا کئے جاتے ہیں۔ سابق وزیر اعظم کا زیادہ فوکس اس پر ہے کہ سیاسی طور پر ان کے مورچے کہاں کہاں کمزور ہوئے ہیں اور ان مورچوں کو دوبارہ کیسے تعمیر کیا جا سکتا ہے۔ یہ بات نون لیگ راولپنڈی کے ایک عہدیدار نے ’’امت‘‘ کو بتائی، جو تقریباً ہر جمعرات کو نواز شریف سے ملاقات کرنے والے رہنمائوں و عہدیداران میں شامل ہوتا ہے۔ اس عہدیدار کا مزید کہنا تھا کہ سیاسی لوگوں سے ملاقات کے موقع پر میاں صاحب مقدمے پر زیادہ بات نہیں کرتے۔ اگر اس حوالے سے ذکر چھڑ بھی جائے تو ان کا مختصر جملہ ہوتا ہے کہ ’’بس دعا کریں‘‘۔ عہدیدار کے مطابق اپنی نااہلی کے بعد غمگین طلال چوہدری ملاقات کرنے جیل پہنچے تو ان سے پنجابی میں میاں صاحب کا کہنا تھا ’’ پریشانی دی کوئی گل نہیں۔ تُسی اور میں کٹھے اسمبلی وچ جاواں گے‘‘۔ اسی طرح انہوں نے ایک اور رہنما کو کہا ’’جلدی تہاڈے نال باہر ملاقات ہووے گی‘‘۔ عہدیدار کے بقول سیاسی رہنمائوں سے نواز شریف عموماً اسی نوعیت کی ہلکی پھلکی گفتگو کرتے ہیں، تاکہ ان کی مایوسی کو دور کیا جا سکے۔ تاہم اپنے وکلا سے ملاقات کے دوران عدالتوں میں دائر اپیلوں اور درخواستوں کے نکات پر وہ ضرور ڈسکس کرتے ہیں۔ ٭
٭٭٭٭٭