درد رسول کو نہیں چھوڑ سکتا

حضرت علامہ ظفر احمد عثمانی صاحبؒ بانیانِ پاکستان میں سے ہیں۔ مغربی پاکستان میں پہلا قومی پرچم انہوں نے ہی لہرایا تھا۔
وہ فرماتے ہیں کہ میں حج کے بعد مدینہ منورہ گیا۔ ہم لوگوں نے کھانا کھانے کے بعد دستر خوان کو لے کر ایک ڈھیر پر جھاڑ دیا، تاکہ روٹی کے ٹکڑوں اور ہڈیوں کو جانور کھائیں۔ تھوڑی دیر کے بعد جب میں اپنے کمرے سے باہر نکلا تو یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ ایک خوبصورت نو دس سال کا بچہ ان ٹکڑوں کو چن چن کر کھا رہا ہے۔ مجھے سخت افسوس ہوا۔ میں بچے کو لے کر قیام گاہ میں آیا اور اسے پیٹ بھر کے کھانا کھلایا، کیونکہ میں ایسی ہستی کے شہر میں تھا، جو غریبوں کا والی تھا۔
میرے اس برتاؤ سے بچہ بے حد متاثر ہوا۔ میں نے چلتے وقت اس سے پوچھا: ’’بیٹے! تمہارے والد کیا کام کرتے ہیں؟‘‘ اس نے کہا کہ میں یتیم ہوں۔
میں نے کہا: ’’بیٹا! میرے ساتھ ہندوستان چلو گے؟ وہاں تم کو اچھے اچھے کھانے کھلاؤں گا، عمدہ عمدہ کپڑے پہناؤں گا، اپنے مدرسے میں تعلیم دوں گا، جب تم عالم فاضل بن جاؤ گے تو میں خود تم کو یہاں لے کر آؤں گا اور تمہیں تمہاری والدہ کے سپرد کر دوں گا۔ تم جاؤ اور اپنی والدہ سے اجازت لے کر آؤ۔‘‘
لڑکا بہت خوش ہوا اور اچھلتا کودتا اپنی والدہ کے پاس واپس گیا۔ وہ بے چاری بیوہ دوسرے بچوں کے اخراجات سے پریشان تھی، اس نے فوراً ہی اجازت دے دی۔ بچہ فوراً واپس آ گیا اور مولانا صاحب کو بتایا کہ میں آپ کے ساتھ جاؤں گا۔ میری ماں نے اجازت دے دی ہے۔ پھر پوچھنے لگا کہ وہاں چنے ملتے ہیں؟ مولاناعثمانی صاحبؒ نے بتایا کہ یہ ساری چیزیں وافر مقدار میں ملتی ہیں۔
مولانا صاحب کا بیان ہے کہ میری انگلی پکڑے پکڑے مسجد نبویؐ میں وہ میرے ساتھ آیا اور ٹھٹک کر رہ گیا۔ سرکار دو عالمؐ کے روضہ مبارک اور مسجد کے دروازے کو دیکھا تو مجھ سے پوچھا: ’’’بابا! کیا یہ دروازہ اور روضہ مبارک بھی وہاں ملے گا؟‘‘
میں نے کہا: ’’بیٹا! اگر یہ وہاں مل جاتا تو میں یہاں کیوں آتا؟‘‘
یہ سن کر لڑکے کے چہرے کا رنگ بدل گیا۔ میری انگلی چھوڑ دی اور بولا: ’’بابا! تم جاو، اگر یہ نہیں ملے گا تو میں ہرگز ہرگز اس دروازے کو چھوڑ کر نہیں جاؤں گا، بھوکا رہوں گا، پیاسا رہوں گا، اس دروازے کو دیکھ کر میں اپنی بھوک پیاس بجھاتا رہوں گا، جس طرح آج تک بجھاتا رہا ہوں۔‘‘
یہ کہہ کر بچہ رونے لگا اور اس کے عشق کو دیکھ کر میں بھی رونے لگ گیا۔
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment