معارف القرآن

معارف و مسائل
اس کے بعد بارہویں آیت مَا کَذَبَ الْفُؤَادُ سے لَقَدْ رَایٰ مِنْ اٰیٰتِ… تک جن میں واقعہ اسراء و معراج کا بیان ہو رہا ہے، اس میں بھی جبرئیل امین کا دوبارہ بصورت اصلیہ دیکھنا اگرچہ مذکور ہے، مگر دوسری آیات کبریٰ کے ضمن میں ہے، جن میں رئویت باری تعالیٰ کے شامل ہونے کا احتمال بھی جو مؤید بالاحادیث الصحیحہ و اقوال صحابہ و تابعین ہے، اس کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا، اس لئے مَا کَذَبَ الْفُؤَادُ کی تفسیر یہ ہے کہ جو کچھ رسول اقدسؐ نے آنکھ سے دیکھا، آپؐ کے قلب مبارک نے اس کی تصدیق کی کہ صحیح دیکھا، اس تصدیق میں قلب مبارک نے کوئی غلطی نہیں کی، اسی کو ما کذب کے لفظ سے تعبیر کیا گیا ہے اور اس میں ’’جو کچھ دیکھا‘‘کے الفاظ عام ہیں، ان میں جبرئیل امین کا دیکھنا بھی شامل ہے اور جو کچھ شب معراج میں آپؐ نے دیکھا، وہ سب شامل ہے اور اس میں سب سے اہم خود حق تعالیٰ کی رئویت و زیارت ہے، اس کی تائید اس سے بھی ہوتی ہے کہ اگلی آیت میں ارشاد ہے اَفَتُمٰرُوْنَہ… جس میں مشرکین مکہ کو خطاب ہے کہ آپؐ نے جو کچھ دیکھا یا آئندہ دیکھیں گے، وہ جھگڑا اور اختلاف کرنے یا شک و شبہ میں پڑنے کی چیز نہیں، عین حق و حقیقت ہے، اس آیت میں صیغہ مستقبل کا استعمال فرمایا، جس میں اگلی رئویت جو لیلۃ المعراج میں ہونے والی تھی، اس کی طرف اشارہ اور اس کے بعد کی آیت میں اس کی تصریح ہے اور اس آیت میں بھی دونوں رویتوں کا احتمال ہے، یعنی رئویت جبرئیل (علیہ السلام) اور رئویت حق تعالیٰ، جبرئیل (علیہ السلام) کی رئویت تو ظاہر ہے اور حق تعالیٰ کی رئویت کی طرف اشارہ اس طرح پایا جاتا ہے کہ رئویت کے لئے قرب عادۃً ضروری ہے، جیسا کہ حدیث میں حق تعالیٰ کا نزول سماء دنیا کی طرف آخر شب میں مذکور ہے۔(جاری ہے)
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment