قربانی کے فضائل

ضیا الرحمٰن چترالی
عید الاضحی کے دن جانور کی قربانی رب تعالیٰ کو سب سے محبوب عمل ہے، یہی وجہ ہے کہ جناب رسول کریمؐ نے ہجرت کے بعد ہر سال اہتمام کے ساتھ قربانی فرمائی۔ کبھی بھی اسے ترک نہیں کیا، جس عمل کو حضور اکرمؐ نے لگاتار کیا اور کسی سال بھی نہ چھوڑا ہو تو یہ اس عمل کے واجب ہونے کی دلیل ہے۔ آپؐ نے استطاعت کے باجود قربانی نہ کرنے والوں پر شدید وعید ارشاد فرمائی ہے، احادیث مبارکہ میں بہت سی وعیدیں ملتی ہیں، مثلاً آپ کا ارشاد ہے کہ جو قربانی نہ کرے وہ ہماری عیدگاہ میں نہ آئے۔ (مسند احمد، ابن ماجہ، حاکم) قرآن کریم میں بعض آیات سے بھی قربانی کا وجوب ثابت ہے، احادیث مبارکہ میں قربانی کے بڑے فضائل بیان کئے گئے ہیں:
مسند احمد میں حضرت زید بن ارقمؓ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ صحابہ کرامؓ نے آپؐ سے عرض کیا کہ: یہ قربانیاں کیا ہیں؟ آپؐ نے فرمایا: قربانی تمہارے باپ ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے۔ صحابہ کرامؓ نے پوچھا: ہمارے لئے اس میں کیا ثواب ہے؟ آپؐ نے فرمایا: ایک بال کے عوض ایک نیکی ہے، اون کے متعلق فرمایا: اس کے ایک ایک بال کے عوض بھی ایک نیکی ہے۔ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ فرماتی ہیں: جناب رسول کریمؐ نے ارشاد فرمایا: ’’قربانی کے دن اس سے زیادہ کوئی عمل محبوب نہیں۔ قیامت کے دن قربانی کا جانور سینگوں، بالوں، کھروں کے ساتھ لایا جائے گا اور خون کے زمین پر گرنے سے پہلے رب تعالیٰ کے یہاں قبولیت کی سند لے لیتا ہے، اس لئے تم قربانی خوش دلی سے کرو۔‘‘ (ترمذی، ابن ماجہ) حضرت ابن عباسؓ فرماتے ہیں: قربانی سے زیادہ کوئی دوسرا عمل نہیں الاّ یہ کہ رشتہ داری کا پاس کیا جائے۔‘‘ (طبرانی)
حضرت ابن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول کریمؐ نے مدینہ منورہ میں دس سال قیام فرمایا اور اس عرصہؐ قیام میں آپ مسلسل قربانی فرماتے تھے۔‘‘ (ترمذی)
حضرت علیؓ سے روایت ہے کہ رسول اکرمؐ نے اپنی صاحبزادی فاطمۃ الزہرائؓ سے ارشاد فرمایا: ’’اے فاطمہ! جائو، اپنی قربانی پر حاضری دو، کیونکہ اس کے خون سے جونہی پہلا قطرہ گرے گا تمہارے سارے گناہ معاف ہو جائیں گے۔ نیز وہ جانور (قیامت کے دن) اپنے خون اور گوشت کے ساتھ لایا جائے گا اور پھر اسے ستر گنا (بھاری کرکے) تمہارے میزان میں رکھا جائے گا۔‘‘ حضرت ابو سعید الخدریؓ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! کیا یہ (فضیلت) آل محمدؐ کے ساتھ خاص ہے یا آل محمدؐ اور تمام مسلمانوں کیلئے عام ہے؟ آپؐ نے ارشاد فرمایا: ’’یہ فضیلت آل محمد کیلئے تو بطور خاص ہے اور تمام مسلمانوں کیلئے بھی عام ہے۔ (یعنی ہر مسلمان کو بھی قربانی کرنے کے بعد یہ فضیلت حاصل ہوگی) (الترغیب و الترہیب)
وضاحت: قربانی کے فضائل میں متعدد احادیث کتب احادیث میں مذکور ہیں، بعض احادیث کی سند میں ضعف بھی ہے، مگر قربانی کا حکم قرآن کریم واحادیث صحیحہ سے ثابت ہے، جس پر پوری امت مسلمہ کا اتفاق ہے، لہٰذا اصول حدیث کی رو سے فضائل قربانی میں احادیث ضعیفہ معتبر ہوں گی۔
حضور اکرمؐ بذات خود نماز عید الاضحی سے فراغت کے بعد قربانی فرماتے تھے، آپؐ کی قربانی کرنے کا ذکر حدیث کی ہر مشہور و معروف کتاب میں ہے۔ آپ نہ صرف اپنی طرف سے بلکہ اپنے گھر والوں اور امت مسلمہ کے ان احباب کی طرف سے بھی قربانی کرتے تھے جو قربانی نہیں کر سکتے تھے۔ (بخاری، مسلم، ترمذی، ابن ماجہ، نسائی، ابودائود ، مسند احمد) حضور اکرمؐ نے حجۃ الوداع کے موقع پر قربانی کے ایام میں سو اونٹوں کی قربانی دی۔ ان میں سے 63 اونٹ آپؐ نے بذات ِخود نحر (ذبح) کئے اور باقی 37 اونٹ حضرت علیؓ نے نحر (ذبح) کئے۔ حضرت جابرؓ فرماتے ہیں کہ نبی اکرمؐ نے عید الاضحی کے دن سینگوں والے، دھبے دار خصی دو مینڈھے ذبح کئے۔ (ابودائود، باب مایستحب من الضحایا) غرضیکہ ان ایام میں خون بہانا ایک اہم ترین عبادت ہے۔
ایک شبہ کا ازالہ:
مغربی تہذیب سے متاثر ہو کر بعض حضرات نے ایک نیا فتنہ شروع کردیا ہے کہ جانوروں کے خون بہانے کے بجائے صدقہ وخیرات کرکے لوگوں کی مدد کی جائے۔ رقم رفاہی اداروں کو یا یتیم خانوں کو دی جائے۔ اس میں کوئی شک وشبہ نہیں کہ اسلام نے زکوٰۃ کے علاوہ صدقہ وخیرات کے ذریعہ غریبوں کی مدد کی بہت ترغیب دی ہے، مگر قربانی حضرت ابراہیم علیہ السلام کے اس عظیم الشان کارنامہ کی یادگار ہے، جس میں انہوں نے اپنے لخت جگر کو ذبح کرنے کے لئے لٹا دیا تھا اور حضرت اسماعیل علیہ السلام نے بلا چوں و چرا حکم الٰہی کے سامنے سر تسلیم خم کرکے ذبح ہونے کے لئے اپنی گردن پیش کردی تھی۔ مگر رب تعالیٰ نے اپنا فضل فرما کر جنت سے مینڈھا بھیج دیا، اِس عظیم الشان کارنامہ پر عمل قربانی کرکے ہی ہو سکتا ہے۔ محض صدقہ وخیرات سے اِس عمل کی یاد تازہ نہیں ہو سکتی۔ نیز چودہ سو سال قبل نبی اکرمؐ نے اس امر کو واضح کردیا تھا۔ حضرت عبد اللہ بن عباسؓ سے روایت ہے کہ رسول اکرمؐ نے ارشاد فرمایا: ’’عید کے دن قربانی کا جانور (خریدنے) کے لئے پیسے خرچ کرنا اللہ تعالیٰ کے یہاں اور چیزوں میں خرچ کرنے سے زیادہ افضل ہے۔ (طبرانی، دار قطنی)
قربانی کا مقصد محض غریبوں کی مدد کرنا نہیں ہے جو صدقہ وخیرات سے پورا ہو جائے، بلکہ قربانی میں مقصود جانورکا خون بہانا ہے۔ یہ عبادت اسی خاص طریقے سے ادا ہوگی، محض صدقہ وخیرات کرنے سے یہ عبادت ادا نہ ہوگی۔ نبی اکرمؐ اور صحابہ کرامؓ کے دور میں غربت دور حاضر کی نسبت بہت زیادہ تھی، اگر جانور ذبح کرنا مستقل عبادت نہ ہوتی تو نبی اکرمؐ اور صحابہ کرامؓ جانور ذبح کرنے کے بجائے غریبوں کی مدد کرتے، مگر تاریخ میں ایسا ایک واقعہ بھی نہیں ملتا۔
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment