عمران خان شریف فیملی کی سیاست کا خاتمہ چاہتے ہیں

امت رپورٹ
وزارت داخلہ نے وفاقی کابینہ کے فیصلے کی روشنی میں نواز شریف اور مریم نواز کا نام ای سی ایل میں ڈال دیا ہے۔ ذرائع کے مطابق عمران خان شریف خاندان کی سیاست کا خاتمہ چاہتے ہیں اور نواز شریف اور مریم کا نام ای سی ایل میں ڈالنا اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ نواز لیگ کے قائد و سابق وزیر اعظم کی ممکنہ رہائی کے بعد نیب العزیزیہ اسٹیل مل، حدیبیہ پیپر ملز اور فلیگ شپ ریفرنسز میں گھیر لے گی۔ یاد رہے کہ نواز شریف، مریم نوازکے نام ای سی ایل میں ڈالنے کی درخواست نیب نے کی تھی۔ جبکہ حسن و حسین نواز کے ساتھ ساتھ سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار کو فوری طور پر وطن واپس لانے کا فیصلہ کیا ہے۔ نواز شریف کے داماد کیپٹن (ر) صفدر کا نام بھی ای سی ایل میں ڈالا گیا ہے۔ حکومتی ذرائع کا کہنا ہے کہ اس بات کے امکانات ہیں کہ نواز شریف اور ان کی صاحبزادی ضمانت پر رہا ہوجائیں اوروہ موقع پاتے ہی ملک سے باہر نہ چلے جائیں اور اپنے خلاف دوسرے ریفرنسز کے مقدامت کی سماعت سے بچ نکلیں، جیسے کہ اسحق ڈار بچ نکلے ہیں۔ ذرائع نے بتایا کہ وزیر اعظم عمران خان پر پہلے دن سے ہی دبائو تھا کہ نواز شریف کو بچ کر نہ جانے دیا جائے۔ پارٹی میں موجود لوگوں کے علاوہ ان کے اتحادی شیخ رشید احمد اس حوالے سے بہت جذباتی ہیں۔ وہ اپنے لیے وزارت داخلہ کا قلمدان اسی لئے حاصل کرنا چاہتے تھے۔ لیکن عمران خان نے بوجوہ یہ قلمدان اپنے ہی پاس رکھا۔ ان کا کہنا ہے کہ ایف آئی اے میں نواز لیگ کی حکومت نے سیاسی تقرریاں کی ہیں اور یہی لوگ اب انہیں رعایتیں دے رہے ہیں۔ شیخ رشید احمد اپنی انتخابی مہم میں مسلسل یہ کہتے رہے ہیں کہ نواز شریف فوج اور عدالت سے انتقام لینا چاہتے ہیں۔ نواز شریف کو عدلیہ کی عزت ایک نظر نہیں بھاتی۔ حدیبیہ پیپر مل پاناما سے بھی بڑا کیس ہے۔ شہباز شریف اس کیس میں نااہل ہو جائیں گے، جس سے دونوں بھائی سیاست سے ہمیشہ کے لئے فارغ ہو جائیں گے۔ شیخ رشید احمد چاہتے ہیں کہ شہباز شریف بھی نوازشر یف کی طرح نااہل ہوجائیں اور شریف خاندان کا پاکستان کی سیاست سے خاتمہ ہوجائے۔ شیخ رشید نے نواز شریف اور مریم کے نام ای سی ایل میں نام ڈالنے کے فیصلے پر کہا ہے کہ جب تک عمران خان وزیر اعظم ہیں، اس وقت تک نواز شریف باہر نہیں جاسکتے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ وہ شہباز شریف اور سعد رفیق کو بھی جیل میں دیکھ رہے ہیں۔ ان کے خیال میں آئندہ چار ماہ نواز لیگ کے لیے سخت ہیں۔ نواز شریف اور شہباز شریف کو جیل میں دیکھنے کی یہ خواہش صرف شیخ صاحب کی ہی نہیں، بلکہ مجموعی طور پر عمران خان اور دیگر پی ٹی آئی رہنمائوں کی بھی ہے۔ 2017ء اگست میں تحریک انصاف کے عثمان سعید اور دیگر لوگوں نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی تھی کہ سابق وزیراعظم نواز شریف اور ان کے اہل خانہ کے نام ای سی ایل میں ڈالے جائیں۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس عامر فاروق نے درخواستوں پر سماعت کی۔ وکیل درخواست گزار نے اپنے دلائل میں کہا کہ ’’ہم نے سابق وزیر اعظم اور ان کے اہل خانہ کا نام ای سی ا یل میں نام ڈالنے سے متعلق متعلقہ فورم سے رجوع کیا، لیکن کوئی جواب نہیں ملا، جس کے بعد عدالت سے رجوع کیا۔ شریف خاندان کا ریکارڈ ہے کہ جب بھی ان کے خلاف کوئی عدالتی فیصلہ آتا ہے تو یہ بیرون ملک بھاگ جاتے ہیں‘‘۔ لیکن عدالت نے یہ درخواست خارج کردی تھی۔ اب اسی عدالت کے سامنے نواز شریف کی رہائی کا مقدمہ زیر سماعت ہے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ نے ان کی ایون فیلڈ ریفرنس میں احتساب عدالت کی جانب سے سنائی جانے والی سزا کی معطلی اور ضمانت پر رہائی کی درخواستوں پر فیصلہ موخر کر دیا ہے۔ ذرائع نے بتایا کہ تحریک انصاف کے رہنما نہیں چاہتے کہ نواز شریف اور مریم کو جیل سے رہا کیا جائے، کیونکہ ایسی صورت میں دونوں ملک بھر میں جلسے کریں گے اور تحریک انصاف کی حکومت کے لیے مشکلات پیدا کریں گے۔ اگر اسلام آباد ہائی کورٹ نے احتساب عدالت کی سزا معطل کرکے ضمانت پر رہائی کا حکم دے دیا تو وفاقی حکومت اس فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کرے گی اور نیب عدالت العزیزیہ اسٹیل ملز اور فلیگ شپ ریفرنسز کا فیصلہ بھی سنا دے گی۔ دوسری جانب ان ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ پارلیمنٹ میں کارروائی میں رخنہ ڈالنے کی نواز لیگ کی مہم کا توڑ بھی تیار کر لیا گیا ہے۔ قومی اسمبلی کے قواعد 19,20 اور 21 کے تحت ہنگامہ کرنے والے ارکان کی رکنیت کارروائی میں خلل ڈالنے پر اس سیشن میں معطل کی جاسکتی ہے۔ ادھر نواز شریف اور ان کے اہلخانہ کے نام ای سی ایل میں ڈالنے پر کسی بھرپور احتجاج کا بھی کوئی امکان نظر نہیں آتا۔ بیشتر لیگی ارکان پارلیمنٹ سابق وزیر اعظم کے خلاف کیسز پر قانونی کارروائیوں پر ہی یقین رکھتے ہیں۔ جبکہ انہیں پارٹی قائد نواز شریف کے بیانیے پر بھی اعتراض ہے۔ یہ لیگی ارکان جب اکٹھے ہوتے ہیں تو یہ ڈسکشن کھل کر کی جاتی ہے کہ اگر ریاستی اداروں کے ساتھ تصادم کی پالیسی اختیار نہ کی جاتی تو آج بھی نواز لیگ کی حکومت ہوتی۔ یاد رہے کہ گزشتہ پیر کو بھی مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف، مریم نواز اور کیپٹن (ر) محمد صفدر کی سزا معطلی سے متعلق درخواست کے فیصلے کے وقت ہائی کورٹ اسلام آباد میں سابق ایم این اے انجم عقیل خان، بیرسٹر دانیال چوہدری، دیرینہ کارکن سردار عابد کے سوا کوئی چوتھا رہنما، پارٹی عہدیدار اور کارکن موجود نہیں تھا۔ حتیٰ کہ سابق وفاقی وزیر، فیڈرل کیپٹل ایریا کے صدر ڈاکٹر طارق فضل چوہدری بھی غیر حاضر تھے، جن کی قیادت میں کارکنوں کو احتساب عدالت اور ہائی کورٹ کے سامنے احتجاج کرنا تھا۔ رپورٹ کے مطابق نواز شریف کی احتساب عدالت میں پیشی کے موقع پر پارٹی صدر شہبازشریف کی واضح ہدایات کے باوجود پارٹی عہدیدار، کارکنوں اور پارلیمنٹرینز کی خاطر خواہ تعداد جمع نہیں ہو سکی۔ حسب روایت سینیٹر پرویز رشید، سینیٹر چوہدری تنویر، سینیٹر سعدیہ عباسی، طارق فاطمی، زہرہ ودود فاطمی، ایم این اے طاہرہ اورنگ زیب، ایم این اے سیما جیلانی، نون لیگ برطانیہ کے سینئر نائب صدر ناصر بٹ، سابق ایم این اے انجم عقیل، سینیٹر مشاہداللہ خان، سابق وفاقی وزیر کامران مائیکل سمیت دو درجن کے لگ بھگ افراد موجود تھے۔ احتساب عدالت کے سامنے موجود پارٹی عہدیداروں، پارلیمنٹرینز نے فیصلے کے برعکس بازوؤں پر سیاہ پٹیاں نہیں باندھ رکھی تھیں اور نہ ہی کسی نے نعرہ بازی کی۔ ہائی کورٹ میں دوپہر تک سینئر رہنما اور پارٹی عہدیدار موجود رہے۔ تاہم جب سوا سات بجے فیصلہ سنایا گیا تو صرف 4 عہدیدار موجود تھے۔
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment