ڈاکٹر عافیہ کو بکرے کی قربانی کا شوق تھا

علی جبران
ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی اپنے اہل خانہ سے کبھی کبھار فون پر بات ہو جایا کرتی تھی، لیکن اب یہ رابطہ پچھلے ڈھائی برس سے منقطع ہے۔ قوم کی مظلوم بیٹی کی امریکی جیل میں یہ اٹھارہویں بقرعید ہے۔ خاندانی ذرائع کے بقول میٹھی عید تو عافیہ اہتمام سے منایا ہی کرتی تھی، لیکن عیدالاضحیٰ پر اس کی خوشی دیدنی ہوا کرتی تھی۔ اہل خانہ نے ’’امت‘‘ کے ساتھ عافیہ کی عید قربان سے وابستہ بہت سی یادیں شیئر کی ہیں۔
عافیہ صدیقی کے والد صالح صدیقی برطانیہ سے تربیت یافتہ ایک معروف نیورو سرجن تھے۔ اچھی آمدنی تھی تو گھر میں قربانی بھی کھلے دل سے ہوا کرتی تھی۔ عموماً چھ بکرے، دو گائے، ایک اونٹ اور ایک مینڈھا قربانی کے لئے لائے جاتے۔ اگرچہ صالح صدیقی کے تمام بچوں کو ہی قربانی سے لگائو تھا، لیکن عافیہ صدیقی کا شوق ان سب سے سوا ہوا کرتا تھا۔ یہ شوق بچپن اور لڑکپن کے بعد جوانی تک قائم رہا۔ پڑھائی اور ملازمت کے سلسلے میں جب عافیہ صدیقی امریکہ میں مقیم ہوئیں تو وہاں سے گلشن اقبال کراچی میں مقیم اپنی والدہ کو قربانی کے جانور خریدنے کے لئے پیسہ بھیجا کرتی تھیں۔ ڈاکٹر فوزیہ بتاتی ہیں… ’’گائے ہو یا بیل یا پھر اونٹ۔ قربانی کے تمام جانوروں سے عافیہ کو بے حد لگائو تھا۔ لیکن بکرے کی قربانی اسے زیادہ پسند تھی۔ بچپن میں ابو سے فرمائش کر کے اپنی پسند کا بکرا منگواتی۔ لڑکپن میں داخل ہوئی تو اپنے سال بھر کے جیپ خرچ کو بچا کر الگ سے ایک بکرا خریدتی۔ اس میں عیدی کی رقم بھی شامل ہوا کرتی تھی۔ پھر ہم سب بہن بھائیوں نے بھی یہی طریقہ اپنا لیا کہ اپنی جمع پونجی سے سب اپنا ایک ایک بکرا لانے لگے۔ عام طور پر عافیہ عید سے قریباً دس روز پہلے قربانی کا بکرا منگوا لیتی اور پھر بکرے سے اس کا لاڈ شروع ہو جاتا۔ صبح سویرے اٹھ کر برتن میں پانی رکھتی۔ اسے چارہ کھلاتی۔ دیکھ بھال کا یہ سلسلہ وقفوں کے ساتھ رات تک چلتا رہتا۔ عافیہ کہتی کہ قربانی کے یہ جانور اس کے گناہوں کی بخشش کا سبب بنیں گے، جب روز قیامت انسان کے نامہ اعمال میں ان جانوروں کے اعضا تولے جائیں گے۔ ایک عید ایسی بھی تھی، جس کے لئے عافیہ نے تین برس تک بکرے کو پالا۔ پھر اس بکرے سے اسے اتنا لگائو ہو گیا کہ ہر عید پر یہ کہہ کر اس کی قربانی مزید ایک برس کے لئے موخر کر دیتی تھی کہ ابھی بہت کم عمر ہے۔ یا یہ کہ اس کے دو دانت پورے نہیں ہوئے۔ یوں ابو کو قربانی کے لئے دوسرا بکرا لانا پڑتا۔ بالآخر جب اس بکرے کی قربانی کا دن آن پہنچا تو عافیہ نے اس کے گوشت کی صرف ایک بوٹی کھائی۔ بہت زیادہ غمگین تھی‘‘۔
بقر عید سے متعلق ڈاکٹر عافیہ کی زندگی کا ایک دلچسپ واقعہ بیان کرتے ہوئے ڈاکٹر فوزیہ کہتی ہیں… ’’بکرے کی قربانی کی شوقین عافیہ کو ایک بار نیا شوق چڑھا، جو بعد ازاں ضد میں تبدیل ہو گیا۔ ابو سے کہا کہ اس بار قربانی کے لئے ’’چاند بیل‘‘ بھی لینا ہے۔ چاند کی طرح خم کھائے بڑے سینگھوں کی نسبت اسے چاند بیل کہا جاتا ہے، جو بہت خرانٹ ہوتا ہے اور اس کی قربانی ایک پُر خطر عمل ہے۔ امی نے بہت سمجھایا کہ چاند بیل کا گوشت بھی سخت ہوتا ہے، لہٰذا کوئی دوسری نسل کا بیل یا بچھیا منگوا لو۔ لیکن عافیہ اپنی ضد چھوڑنے پر تیار نہیں ہوئی۔ چنانچہ ابو کو ہتھیار ڈالنے پڑے۔ یوں عید سے چند روز پہلے ہی گھر میں چاند بیل آ گیا۔ جسے سنبھالنا بڑا مشکل تھا۔ غضب یہ ہوا کہ ایک روز چاند بیل نے اپنا رسہ توڑ لیا۔ اب گھر میں وہ دھما چوکڑی مچی کہ مت پوچھو۔ اتنے برس گزرنے کے بعد ہمارے گھر کا مضبوط آہنی دروازہ آج بھی ٹیڑھا ہے۔ یہ اسی چاند بیل کی نشانی ہے۔ جس نے رسہ توڑنے کے بعد گیٹ پر ٹکریں ماری تھیں۔ جب یہ صورت حال پیدا ہوئی تو اس شخص کو فون کر کے ایمرجنسی میں بلایا گیا، جس سے یہ بیل خریدا گیا تھا۔ اس نے آتے ہی پیار سے بیل کو پکارا ’’شیرو‘‘ اور وہ سر جھکائے اس کی طرف چلا آیا اور پھر اسے پہلے سے بھی زیادہ موٹے رسے کے ساتھ دوبارہ باندھا گیا۔ اس شخص نے بتایا کہ چاند بیل اس کے گھر کا پلا ہوا ہے اور اس نے پیار سے اس کا نام ’’شیرو‘‘ رکھا تھا‘‘۔
عافیہ صدیقی کو قربانی کے جانور خریدنے کا تو حد درجہ شوق تھا، لیکن ان جانوروں کو ذبح کرنے کے موقع پر وہ موجود نہیں ہوتی تھی۔ اس سے یہ منظر دیکھا نہیں جاتا تھا۔ بالخصوص جب اس کے پالے ہوئے لاڈلے جانور کی قربانی ہو رہی ہوتی تھی تو وہ بالکل اپنے کمرے سے نہیں نکلا کرتی تھی۔ قربانی کا عمل مکمل ہو جاتا اور اس کے بعد پکوان بنانے کا سلسلہ چلتا تو عافیہ بھی اس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی۔ خاص طور پر سیخ والے ریشمی کباب بنانے میں عافیہ کو ملکہ حاصل تھا۔ اس کے ہاتھ کے بنے ریشمی کباب کھانے والا اپنی انگلیاں چاٹتا رہ جاتا۔ اسی طرح عافیہ دہلی کی شاہی بریانی بھی بہت عمدہ بناتی۔ اس بریانی کے چاول پانی کے بجائے یخنی میں ابالے جاتے ہیں اور اس میں زعفران بھی ڈالا جاتا ہے۔ کھانا پکانا عافیہ نے اپنی والدہ عصمت صدیقی سے سیکھا۔
قربانی کا شوق عافیہ سے ان کی اولاد میں بھی منتقل ہوا ہے۔ مریم اور احمد دونوں کو قربانی سے بڑا لگائو ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ احمد خود منڈی جا کر جانور خریدنے کے بجائے یہ ذمہ داری گھر کے کسی اور فرد پر ڈال دیتا ہے۔ جبکہ مریم اپنے پسند کے جانور کے لئے خود مویشی منڈی کے چکر لگاتی ہے۔ ان دونوں بچوں کی پرورش کرنے والی ڈاکٹر فوزیہ بتاتی ہیں… ’’مریم کے قربانی کے شوق کو دیکھ کر مجھے عافیہ یاد آجاتی ہے۔ مریم بالکل اپنی ماں کی طرح نہ صرف قربانی کے جانوروں کی خدمت کرتی ہے، بلکہ جب تک پسند کا جانور نہ مل جائے مویشی منڈیوں کے چکر لگاتے نہیں تھکتی۔ مجھے بھی اپنے ساتھ گھماتی ہے۔ اس عید پر بھی اس کی یہ مشق جاری رہی۔ مویشی منڈی کے تین چکر لگانے کے بعد بالآخر اس نے ایک چھوٹا مگر خوبصورت بکرا خریدا ہے۔ دراصل مریم اور میری بیٹی عائشہ دونوں نے مل کر یہ بکرا لیا ہے اور اب دونوں اس کی دیکھ بھال میں مصروف ہیں۔ اس وقت گھر میں تین قربانی کے بکرے آ چکے ہیں، جبکہ گائے میں تین حصے ڈالے گئے ہیں۔ ایک بکرا مریم اور عائشہ کا ہے۔ دوسرا امی کے لئے خریدا گیا اور تیسرا عافیہ کے صدقے کے نام کا ہے۔ پہلے میں ہر عید پر عافیہ کے نام کی قربانی کیا کرتی تھی۔ لیکن کسی نے کہا کہ جیل میں ہونے کے سبب عافیہ پر قربانی واجب نہیں تو اب میں اس کے نام پر صدقہ دینے کے لئے بکرا لاتی ہوں‘‘۔
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment