معارف القرآن

معارف و مسائل
عند سدرۃ المنتہیٰ کا مفہوم یہ ہے کہ جس وقت آپؐ سدرۃ المنتہیٰ کے پاس تھے جو مقام قرب ہے، حق تعالیٰ کے ساتھ اس وقت دیکھا، اس میں حق تعالیٰ کی زیارت بھی مراد ہونے پر یہ حدیث شاہد ہے کہ رسول اقدسؐ نے فرمایا:
میں سدرۃ المنتہیٰ کے پاس پہنچا تو مجھے بادل کی طرح کی کسی چیز نے گھیر لیا، میں اس کے لئے سجدے میں گر پڑا۔ قیامت کے روز محشر میں حق تعالیٰ کا ظہور قرآن کریم کی ایک آیت میں اسی طرح مذکور ہے کہ بادلوں کے سائے کی طرح کی کوئی چیز ہوگی اس میں حق تعالیٰ نزول اجلال فرمائیں گے۔
اسی طرح اگلی آیت مَا زَاغَ الْبَصَرُ… کا مفہوم بھی دونوں رئویتوں کو شامل ہے اور اس سے یہ مزید ثابت ہوا کہ یہ رئویت حالت بیداری میں آنکھوں سے ہوئی ہے۔
خلاصہ یہ ہے کہ جن آیات میں لیلۃ المعراج کا ذکر ہے، ان میں رئویت کے بارے میں جتنے الفاظ آئے ہیں، ان سب میں رئویت جبرئیل اور رئویت حق سبحانہ دونوں محتمل ہیں اور بھی حضرات نے ان کی تفسیر رئویت حق تعالیٰ سے کی ہے ، اس کی گنجائش الفاظ قرآن میں موجود ہے۔
رئویت باری کا مسئلہ:
تمام صحابہؓ و تابعینؒ اور جمہور امت اس پر متفق ہیں کہ آخرت میں اہل جنت و عام مؤمنین حق تعالیٰ کی زیارت کریں گے، جیسا کہ احادیث صحیحہ اس پر شاہد ہیں، اس سے اتنا معلوم ہوا کہ باری تعالیٰ کی رئویت و زیارت کوئی امر محال یا ناممکن نہیں، البتہ دنیا میں انسانی نگاہ میں اتنی قوت نہیں، جو اس کو برداشت کرسکے، اس لئے دنیا میں کسی کو رئویت و زیارت حق تعالیٰ کی نہیں ہو سکتی، آخرت کے معاملے میں خود قرآن کریم کا ارشاد ہے: آخرت میں انسان کی نگاہ تیز اور قوی کر دی جائے گی اور پردے ہٹا دیئے جائیں گے، حضرت امام مالکؒ نے فرمایا کہ دنیا میں کوئی انسان باری تعالیٰ کو نہیں دیکھ سکتا، کیونکہ اس کی نگاہ فانی ہے اور حق تعالیٰ باقی، پھر جب آخرت میں انسان کو غیر فانی نگاہ عطا کر دی جائے گی تو حق تعالیٰ کی رئویت میں کوئی مانع نہ رہے گا، تقریباً یہی مضمون قاضی عیاضؒ سے بھی منقول ہے اور صحیح مسلم کی ایک حدیث میں اس کی تقریباً تصریح ہے، جس کے الفاظ یہ ہیں: واعلموا انکم لن تروا ربکم حتی تموتوا (جان لو کہ تم جب تک زندہ ہو اپنے رب کو نہیں دیکھ سکتے) (فتح الباری، ص 493 ج 8) اس سے امکان تو اس کا بھی نکل آیا کہ عالم دنیا میں بھی کسی وقت خصوصی طور پر رسول اقدسؐ کی نگاہ میں وہ قوت بخش دی جائے، جس سے آپؐ حق تعالیٰ کی زیارت کر سکیں، لیکن اس عالم سے باہر نکل کر جبکہ شب معراج میں آپؐ کو آسمانوں اور جنت و دوزخ اور حق تعالیٰ کی خاص آیات قدرت کا مشاہدہ کرانے ہی کے لئے امتیازی حیثیت سے بلایا گیا، اس وقت تو حق تعالیٰ کی زیارت اس عام ضابطے سے بھی مستثنیٰ ہے کہ اس وقت آپؐ اس عالم دنیا میں نہیں ہیں، ثبوت امکان کے بعد مسئلہ یہ رہ جاتا ہے کہ کیا رئویت واقع ہوئی یا نہیں؟ اس معاملے میں روایات حدیث مختلف اور آیات قرآن محتمل ہیں، اسی لئے صحابہ و تابعین اور ائمہ دین میں یہ مسئلہ ہمیشہ زیر اختلاف ہی رہا، ابن کثیر نے ان آیات کی تفسیر میں فرمایا کہ حضرت ابن عباسؓ رسول اقدسؐ کیلئے رئویت حق سبحانہ و تعالیٰ کو ثابت فرماتے ہیں اور سلف صالحین کی ایک جماعت نے ان کا اتباع کیا ہے اور صحابہ و تابعین کی بہت سی جماعتوں نے اس سے اختلاف کیا ہے، آگے دونوں جماعتوں کے دلائل وغیرہ بیان کئے ہیں۔(جاری ہے)
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment