شیخ ابراہیم الحازمی (استاذ کنگ سعود یونیورسٹی، ریاض) لکھتے ہیں کہ حق تعالیٰ اپنی مخلوق پر حفیظ ہیں اور وہی سب کی مکمل حفاظت فرماتے ہیں۔ قرآن کریم میں ہے:
ترجمہ: ’’خدا سب سے بڑھ کر نگہبان ہے۔‘‘
وہ ’’جدید مصر‘‘ میں موت کی عمارت کے ملبے تلے زندگی کی آخری سانسیں لے رہے تھے، جس میں ’’سامیہ رجب خلیل‘‘ اور اس کے بیٹے خالد کی داستان دلوں کو دہلا دیتی ہے، جسے موت کی اس عمارت کے نیچے دس گھنٹے کی مسلسل جدوجہد کے بعد بالآخر زندہ نکال لیا گیا تھا، سامیہ رجب خلیل کی زبانی اس کرشماتی کہانی کو ملاخطہ کیجیے!
’’خالد ہر دن ہاسٹل سے پونے دو بجے کے قریب آتا تھا۔ وہ اسکول وین سے نیچے اتر کر میرا انتظار کرتا، میں فلیٹ سے نیچے آتی اور پھر اسے خود لے کر اوپر جاتی۔
پھر اس کے دونوں بھائی ’’حسام اور وائل‘‘ بھی ساڑھے تین بجے کے قریب آجاتے، لیکن جس دن یہ قصہ ہوا، اس روز خالد حیرت انگیز طور پر میرا انتظار کیے بغیر خود ہی اوپر چڑھ گیا۔
اس دن اس کا چہرہ سعادتوں سے بھرا اور انتہائی مبارک لگ رہا تھا، یہی وجہ ہے کہ اس دن میں نے اسے خلاف عادت بے پناہ پیار کیا اور وقت سے پہلے ہی کھانا بھی کھلا دیا۔ پھر میں باورچی خانے میں برتن سمیٹ رہی تھی کہ اسی دوران وہ قیامت برپا ہوگئی، جس نے میری زندگی کے آگے گہرے اور تاریک اندھیرے پھیلا دیئے۔
اچانک پوری عمارت لرزنے لگی اور ہر چیز اپنی جگہ سے گرنے لگی۔ میں پوری طاقت کے ساتھ خالد کی طرف دوڑی اور اسے اٹھا کر تیزی سے بھاگی کہ یہ تو اکٹھا ہی جئیں گے یا پھر اکٹھا ہی مریں گے، لیکن تقدیر نے ہمیں مہلت نہیں دی۔ ابھی ہم اندر ہی تھے کہ پوری عمارت دھڑام سے نیچے آگئی، عمارت کے نیچے آتے ہی میں نے سوچا کیا یہ قیامت کا دن ہے؟‘‘
عافیت خدا تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہے۔ مختلف قسم کے حواداث اور مصائب سے بچنے کے لیے رسول اکرمؐ کی تعلیم کردہ دعا جو شخص صبح پڑھے گا، شام تک اور جو شام کو پڑھے گا، صبح تک خدا پاک، اس کی حفاظت فرمائیں گے۔
ترجمہ: ’’ٓخدایا! تو میرا رب ہے، نہیں ہے معبود سوائے تیرے، تجھ ہی پر میرا بھروسہ ہے اور تو بڑے عرش کا مالک ہے، جو خدا چاہے وہ ہو جاتا ہے اور جو نہ چاہے وہ نہیں ہوتا اور خدا بزرگ وبرترکی توفیق کے بغیر نیکی کرنے کی طاقت ہے نہ برائی سے بچنے کی ہمت۔ میں جانتا ہوں کہ خدا ہر چیز پر قادر ہے اور یہ (بھی جانتا ہوں) کہ خدا تعالیٰ کا علم ہر چیز کو گھیرے ہوئے ہے۔ خدایا! میں پناہ لیتا ہوں تیری اپنے نفس کے شر سے اور ہر چوپائے کے شر سے جس کی پیشانی تو پکڑے ہوئے ہے۔ بلاشبہ رب کا راستہ سیدھا ہے۔‘‘ (ابن سنی، باب مایقول اذا اصبح:30)
سامیہ رجب خلیل ابھی اتنی ہی بات کر پائی تھی کہ اس کی آنکھوں سے آنسوؤں کا دریا امڈ آیا اور وہ بڑی مشکل سے کہہ پا رہی تھی، اس لیے آگے کی بات اس کی بہن نے پوری کی، ملاخطہ کیجیے!
’’خالد اس عمارت کے ملبے تلے فوراً نہیں مرا، بلکہ دیر تک وہ زندگی اور موت کی کشمکش میں رہا۔ بے چاری سامیہ اس کو دیکھ نہیں پا رہی تھی، لیکن اتنا ضرور تھا کہ اسے اس کے زندہ ہونے کا مکمل احساس تھا، کیوں کہ سامیہ کا ہاتھ خالد کے دھڑکتے دل پر ہی تھا اور دونوں ایک دوسرے سے باتیں بھی کررہے تھے۔
جیسے مثال کے طور پر:
خالد: ’’ماما! یہاں میرے پاس آجاؤنا!‘‘
سامیہ: ’’بیٹا! میں یہیں پر ہوں۔‘‘
خالد: ’’امدادی کارکن آکر کب ہم سے مٹی اٹھائیں گے۔‘‘
سامیہ: ’’کچھ نہیں بیٹا! میرے چاند!‘‘
خالد: ’’کیا ہم یہاں مر جائیں گے؟‘‘
سامیہ: ’’بیٹا! کیا آپ مجھے دیکھ رہے ہو؟‘‘
اورخالد کی آواز پھر بند ہوگئی، پھر کچھ دیر کے بعد وہ واپس روتا ہوا بیدار ہوا اور زندگی کی آخری سانسیں ایک ایک کر کے اس نے لی اورپھر ابدی بیند سوگیا۔
اسی دوران سامیہ نے ایک زور دار آواز میں چیخ لگائی: ’’ہائے موت!‘‘
یہ آواز باہر کام کرنے والی امدادی فوج کے ایک کارکن کے کانوں میں پڑی اور پلک جھپکنے کی دیر میں وہ آواز کی سمت پر آپہنچا۔ حق تعالیٰ نے اس کارکن کی دست گیری فرمائی اور وہ جائے موت پر تقریباً تین گھنٹے بعد پہنچے میں کامیاب ہوگیا اور سامیہ کو ملبہ سے نکال کر باہر لے آیا۔ یوں سامیہ موت کی خوف ناک وادی کا طواف کر کے واپس زندہ سالم آگئی۔‘‘ (راحت پانے والے، مولف: شیخ ابراہیم الحازمی، استاذ کنگ سعود یونیورسٹی، ریاض سعودی عرب)
٭٭٭٭٭