رزق حلال سے دل منور ہوتا ہے

دیوبند میں ایک شاہ جی عبد اﷲ تھے۔ درویش، نیک اور صاحب نسبت بزرگ تھے۔ انہوں نے اپنے گزر بسر کیلئے یہ معمول بنا رکھا تھا کہ روزانہ فجر کی نماز پڑھ کر سیدھے جنگل جاتے اور وہاں سے قدرتی گھاس کاٹ کر، اس کی ایک گٹھری بنا کر اپنے سر پر رکھ کر منڈی میں جاتے تاکہ اس کو بیچ کر حلال روزی حاصل کریں۔ چونکہ صاحب نسبت بزرگ اور خدا کے نیک بندے والے تھے اس لئے جو لوگ گھاس خریدنے والے ہوتے تھے، وہ شاہ جی کے انتظار میں رہتے کہ کب شاہ جی گھاس لائیں اور ہم ان سے گھاس خرید لیں۔
شاہ جی ایک خاص مقدار کی گھاس لاتے اور اس کو چار آنے میں بیچتے۔ چونکہ خریدار زیادہ ہوتے تھے، اس لئے جیسے ہی وہ شاہ جی کو آتا دیکھتے، فوراً ان سے خریدنے کیلئے دوڑ لگاتے اور شاہ جی کا اصول یہ تھا کہ جو شخص سب سے پہلے اس گٹھڑی پر ہاتھ لگا دیتا، وہ گٹھڑی اس کو بیچ دیتے اور اس سے چار آنے وصول کر لیتے، نہ چار آنے سے کم لیتے اور نہ زیادہ۔
چار آنے کا حسن انتظام:
ان چار آنے کو خرچ کرنے میں ان کا حسن انتظام یہ تھا کہ ایک آنہ غربا، فقراء اور مساکین پر صدقہ کر دیتے، ایک آنہ اپنی ضرورت کے لئے رکھ لیتے۔ ایک آنہ اپنی بیٹی کو دے دیتے اور ایک آنہ دارالعلوم دیوبند کے اکابرین اور بزرگوں کی دعوت کے لئے جمع کر لیتے ۔ (یہ تقریباً ڈیڑھ صدی پہلے کی بات ہے، جبکہ آنہ بھی اپنی قدر رکھتا تھا) اس طرح اس چار آنے میں ان کے سارے کام ہو جاتے۔ دنیا کا گزر بسر بھی ہو رہا ہے، خدا کے راستے میں صدقہ بھی ہو رہا ہے، صلہ رحمی بھی ہو رہی ہے، کیونکہ بیٹی پر خرچ کرنے میں اس کے ساتھ ہمدردی اور صلہ رحمی ہے۔ علمائے کرام اور بزرگان دین کی خدمت بھی ہو رہی ہے۔ ان کی دعوت کے لئے بھی پیسے جمع کر رہے ہیں، یہ ان کا روزانہ کا معمول تھا۔
علمائے کرام کی دعوت:
حضرت شاہ جی عبداﷲ اپنی آمدنی میں سے ایک آنہ جو علماء کی دعوت کے لئے رکھتے، جب وہ چار روپے جمع ہو جاتے تو اس وقت کے علماء یعنی مولانا محمد قاسم نانوتویؒ، مولانا رفیع الدینؒ، حاجی امداد اﷲ مہاجر مکیؒ، مولانا رشید احمد گنگوہیؒ اور مولانا محمد یعقوب نانوتویؒ جیسے بزرگوں کی دعوت کرتے۔ کبھی تو اپنے یہاں کھانا پکا کر ان سب کو بلا کر کھلاتے اور کبھی دارالعلوم میں جا کر وہ رقم ان حضرات کو دے دیتے اور ان سے عرض کرتے کہ مجھے اچھا پکانا نہیں آتا اور پکانے کی فرصت بھی نہیں ہے۔ آپ حضرات اس رقم سے اپنی پسند کا کھانا پکا کر کھا لیں، بس یہ میری طرف سے دعوت ہے۔
دعوت کھانے کا اہتمام:
ان اکابر میں مولانا محمد یعقوب صاحب نانوتویؒ ہر فن مولیٰ تھے۔ کھانا پکانا بھی جانتے تھے، سینا پرونا بھی جانتے تھے اور بہت سے کام کر لیتے تھے۔ چنانچہ دوسرے حضرات، مولانا محمد یعقوب صاحبؒ سے درخواست کرتے کہ آپ کھانا پکائیں۔ چنانچہ آپ پہلے غسل کرتے، دھلا ہوا لباس پہنتے، پھر بازار جا کر ان پیسوں سے سامان لا کر کھانا پکاتے، جب کھانا پک کر تیار ہو جاتا تو باقی حضرات بھی غسل و وضو کا اہتمام کرتے، پھر شاہ جیؒ کی دعوت تناول فرماتے۔
دعوت کے نیک اثرات:
یہ حضرات اکابر فرماتے تھے کہ شاہ جیؒ کی اس دعوت کا ہمارے اوپر یہ اثر ہوتا کہ ایک ایک مہینے تک ہمارا دل روشن ہو جاتا اور ہمارے دل میں آخرت کی تیاری کے جذبات ابھر آتے اور راتوں کو ہم مصلے پر کھڑے ہو کر خدا کی یاد میں گزارتے اور دل کی کیفیت بدل جاتی، قلب منور ہو جاتا اور ذکر الٰہی کرنے کو جی چاہتا۔ کھانے سے پہلے کی کیفیت اور کھانے کے بعد کی کیفیت میں نمایاں طور پر فرق محسوس ہوتا اور ایک دن کی دعوت کا ایک مہینے تک اثر رہتا۔
(بے مثال واقعات)
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment