نواب مرزا کے شاعر بننے عزم نے وزیر خانم کو متفکر کردیا

شاعروں کے ذکر نے نواب مرزا کو اپنی بات کہنے کا موقع فراہم کردیا۔ اس نے کچھ جھجکتے ہوئے کہا: ’’اماں جان، وہ… بات یہ ہے کہ مجھے شاعر ہی بننا ہے۔ شعر سے روٹی کمانی ہے۔ آپ کی نگہداشت کرنی ہے۔ شاعری کے سوا کار دیگر از ما نمی آید‘‘۔
وزیر کے چہرے پر محبت بھرا تبسم آیا، لیکن تبسم اس کی بڑی بڑی شربتی آنکھوں تک نہ پہنچ سکا۔ اس کی آنکھوں سے ہلکا سا تفکر، بلکہ فکر مندی جھلک رہی تھی۔ پھر بھی، اس نے ایک لحظ توقف کے بعد کہا: ’’لو بھئی سپاہی زادہ اور سخنوری کرے، خوب۔ بہت خوب۔ اب میں کیا کہہ سکوں ہوں، شمشیر سخن بھی کوئی شے ہووے ہے‘‘۔
’’مرزا نوشہ بھی تو سپاہی زادے ہیں، تو کیا وہ شاعر نہیں ہیں اماں جان؟‘‘۔ نواب مرزا نے بحث کے انداز میں نہیں، بلکہ گفتگو کے انداز میں کہا۔
’’اے بیٹا وہ تو اپنے کو نواب زادہ بھی کہیں ہیں…‘‘۔
’’تو میں بھی تو نواب زادہ ہوں اماں جان‘‘۔
وزیر کہنا چاہتی تھی، پر تیرے آسمان کا سورج تو کب کا غروب ہو چکا میرے بیٹے۔ تیرے دوسرے باپ کو بھی قزاق اجل نے پردیس میں لوٹ لیا۔ اب تو کس برتے پر تتا پانی کہتا ہے۔ لیکن اس کی ہمت نہ ہوئی۔ اس نے پُر تفکر آنکھوں سے بیٹے پر دوبارہ نظر کی۔ وہ سیاہ شعلے کی طرح تپتا ہوا کتابی چہرہ، ستواں ناک اور چہرے کے نقوش بالکل باپ جیسے، لیکن رنگ ماں سے بھی زیادہ دبتا ہوا، آنکھیں ماں کے دیدوں جیسی شربتی، نہایت بڑی بڑی جن میں ہلکے گلابی ڈورے، گردن سیدھی، پیشانی اونچی اور قد افراز۔ انداز نشست و برخاست بھی بالکل باپ جیسا۔ چہرے پر سبزہ آغازی اس قدر بھلی لگتی تھی کہ جی چاہتا تھا سامنے بٹھلا لیجے اور دیکھتے رہیئے۔ سر پر رواج زمانہ کے موافق چمکیلے پٹے دار بال گردن سے ذرا نیچے تک، چو گوشیہ سیاہ مخملی ٹوپی جس کے گوشوں اور کناروں پر سنہری کام۔ بر میں سبز گلبدن کا ڈھیلا پاجامہ۔ جامہ زیبی ایسی کہ گل داؤدی بھی نثار ہو۔ ایسے شخص کو تو بادشاہ ہونا چاہئے تھا، وزیر نے دل میں کہا۔ لیکن ہائے افسوس کہ اس وقت بادشاہی کیا، میرے لال کے لئے دو وقت کی شریفانہ روٹی اور رات کا آرام بھی نصیب نہیں۔ تس پر یہ شوق کہ شاعری کو تلاش معاش کا بہانہ بنائیں گے۔ لوگ دن رات سعی کرتے ہیں، کسی بڑی اور شہرت مند استاد کا دامن پکڑتے ہیں، تب کہیں جاکر مدتوں میں خود استاد کو درجہ حاصل کرتے ہیں اور وہ بھی تب، جب استاد فارغ اصلاح قرار دے دے۔ شاعر بننا کچھ ہنسی نہیں ہے۔ اتنے پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں کہ بس۔ دن پھر پیستے ہیں تو چٹکی بھر اٹھاتے ہیں۔ اور پھر بھی کامیابی مقدر کی پابند ہے…۔
اس نے دوبارہ سر اٹھاکر بیٹے کی طرف دیکھا۔ اس کے چہرے پر کچھ اعتماد، کچھ ضد اور کچھ بچوں کی طرح مچل جانے کے تاثرات گھل مل گئے تھے۔ وزیر نے دل میں کہا، شاید یہ محض بال ہٹ سی کوئی بات ہے، بچہ ہی تو ہے۔ سمجھاؤں بجھاؤں یا ابھی بات کو ٹال جاؤں تو شاید ارادہ بدل لے۔ مجھے جلدی بھی کیا ہے۔ پھر اسے معاً سوجھی کہ ارادے کی صلابت بفور معلوم کرنے کا ایک طریقہ اور بھی ہے۔ اس نے مسکرا کر گلا صاف کیا اور اپنی نہایت خوش آئند آواز اور گفتگو کے لہجے میں مصحفی کی رباعی پڑھی
ہے ہم کو تو شعر کو فقط اس سودا
ہو ہم سے نہ کار دیں نہ کار دنیا
ہوتی ہے جنہیں کہ مصحفی عقل معاش
پتھر سے بھی کرتے ہیں وہ روٹی پیدا
رباعی پڑھ کر وزیر نے نواب مرزا کو کچھ مستفسر، کچھ چھیڑنے والی نگاہ تبسم آمیز سے دیکھا، گویا پوچھ رہی ہو، لایئے، اب اس کا جواب لائیے۔ نواب مرزا کے چہرے پر کچھ بیچارگی سی آئی۔ اتنے عمدہ کلام کا جواب لانا، یا اس کے سامنے کوئی بات اس طرح کہنا کہ اپنی بن جائے، بڑا مشکل لگ رہا تھا۔ پھر اچانک وہ کچھ زور سے ہنس کر بولا: ’’مگر اماں جان پتھر سے پیدا کی ہوئی روٹی گلے کا پھندا بھی تو بن سکتی ہے‘‘۔
وزیر مسکرائی۔ بیٹے کی بات کی تہ میں پنہاں رمز کو وہ پہنچ گئی تھی۔ ’’مانا کہ روٹی کے پھیر میں انسان اپنے صفائے قلب کا گلا بھی گھونٹ دے سکے ہے‘‘۔ اس نے ایک ذرا توقف کیا، ’’مگر یوں بھی تو ہوسکے ہے کہ کوئی سودے کو عقل پر حاوی نہ ہونے دیوے، اور نہ چربی اور خون کو دل پر چڑھ جانے دیوے‘‘۔
نواب مرزا کے دل میں کچھ جھلاہٹ سی آئی۔ یہ بیگم صاحب آخر چاہتی کیا ہیں۔ ہم خدا خواہی وہم دنیائے دوں ایں خیال است و محال است و جنوں کی بات تو ہو نہیں رہی۔ اور نہ ہی میں یہ کہہ رہا ہوں کہ میں گریبان پھاڑ کر شعر کی وحشت کے اثر سے آوارہ گرد ہوجاؤں گا۔ میں تو صرف یہ کہہ رہا ہوں کہ انسان سخنوری کے بل بوتے پر بھی دنیا میں جگہ بنا سکتا ہے، روٹی بھی کھا سکتا ہے۔ اس نے اپنی جھلاہٹ کو دبا کر کچھ شرمندہ سے لہجے میں کہا: ’’لیکن میاں مصحفی تو شاید یہ کہہ رہے ہیں اماں جان کہ میں اپنے سودے کو برقرار رکھوں گا اور عقل معاش کو بھی کام میں لاؤں گا‘‘۔
’’بھئی یہ معنی تو اس رباعی میں مجھے دکھائی نہیں دیتے۔ شیخ صاحب تو صاف کہہ رہے ہیں کہ جسے سودائے شعر ہے وہ نہ دنیا کا رہے ہے نہ دین کا‘‘۔
نواب مرزا کے دل میں پھر برہمی کا ایک طرارہ سا اٹھا۔ ’’ہر شخص اپنے اپنے طور پر مفہوم لیتا ہے اماں جان۔ لیکن آپ چاہتی کیا ہیں؟‘‘۔
’’چاہتی کچھ نہیں‘‘ وزیر نے متانت سے کہا۔ ’’جاننا چاہتی ہوں‘‘۔
’’کیا؟‘‘ نواب مرزا نے مختصر لہجے میں کہا۔
’’یہی کہ شعر گوئی کی للک…‘‘۔ اچانک اس نے بات بدل دی ورنہ وہ کہنے والی تھی کہ یہ للک پیٹ بھروں ہی کو زیب دیتی ہے۔ ’’… آپ کو کہاں لے جائے گی؟‘‘۔
’’توبہ ہے اماں جان‘‘۔ نواب مرزا نے ماں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا۔ ’’یہ میرے لئے ذریعہ معاش کا راستہ کھولے گی اور میری… میری روحانی نہیں… قلبی و ذہنی زندگی میں رونقیں برپا کرے گی‘‘۔
’’یہی تو مجھے خوف تھا…‘‘۔ وزیر نے کہنا شروع کیا۔ زندگی میں پہلی بار نواب مرزا نے ماں کی بات کاٹی اور ذرا تیز لہجے میں کہا۔ ’’واللہ اماں جان آپ کو مجھ پر اتنا بھی اعتماد نہیں کہ میں شاعر بن سکتا ہوں اور میرے دل میں اس بات کی تڑپ ہے کہ آپ کی دیکھ بھال کروں، آپ کو آرام سے رکھوں؟ کامیابی نا کامی اللہ کے ہاتھ میں ہے، لیکن انسان کوشش تو کرسکتا ہے۔‘‘
وزیر کی زبان بھی زندگی میں پہلی بار بیٹے کے سامنے لڑ کھڑائی۔ ’’م… میں صرف یہ… صرف یہ کہہ رہی تھی کہ آپ ابھی بہت… چھوٹے ہیں‘‘۔
نواب مرزا نے تلخ سا قہقہہ لگایا۔ ’’چھوٹے کی خوب کہی اماں جان۔ میری تعلیم جتنی ممکن تھی ہو چکی۔ اگر ہمارا کوئی سرپرست ہوتا تو اب تک میری شادی کر کے مجھے گھر گر ہستی والا بنا چکا ہوتا۔ مجھ سے کم سن والے لوگ کاروبار دنیا میں جھونک دیئے جاتے ہیں اور نفع نقصان کچھ نہ کچھ حاصل ہی کرلیتے ہیں۔ ہمارا حال یہ ہے کہ آپ کا چہرہ بے رونقی اور آپ کا بدن بے آسائشی کی تصویریں ہیں، جس طرح کی زندگی آپ کو استحقاقی طور پر ملنی چاہئے وہ میرے لئے ایسا شمعدان ہے جو فلک الافلاک سے بھی کہیں زیادہ بلندی پر تعبیہ کر دیا گیا ہے۔ یہی رنگ رہے تو کوئی دن جاتا ہے کہ آپ کی زندگی داستان پارینہ بن جائے گی، آپ کا نخل حیات پوری طرح مرجھائے گا بھی نہیں کہ کاٹ ڈالا جائے گا۔ ایک میں ہوں جو گھر کے باہر نکل سکتا ہوں، کچھ کر سکتا ہوں۔ اور آپ سمجھ رہی ہیں کہ ابھی مجھے حبیبہ کی لوریوں اور آپ کی آغوش کی ضرورت ہے۔ آخر آپ مجھے کب تک بھونرے میں رکھ کر پالئے گا‘‘۔
(جاری ہے)
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment