سرفروش

عباس ثاقب
میں نے سچن بھنڈاری سے متعلق معلومات کے صفحات کو فائل سے علیحدہ کر کے اپنے پاس رکھ لیا، تاکہ میں افتخار محمود صاحب سے ملاقات کے دوران ضرورت پڑنے پر اپنے اخذ کردہ نتائج پر اس دستاویز میں درج معلومات کی روشنی میں بات کر سکوں۔ ان کے نام ملاقات کا پیغام پہنچانے کے لیے مجھے شام کا انتظار کرنا تھا، کیونکہ اسلم شام ڈھلے ہی رابطے کے مقام یعنی ورکشاپ پر پہنچتا تھا۔
وقت گزاری کے لیے میں نے ایک بار پھر چرمی بیگ میں آنے والے سامان کا جائزہ لیا۔ میں نے افتخار صاحب سے خفیہ کیمرے کی فرمائش کی تھی، لیکن مجھے وہ بیگ میں دکھائی نہیں دیا۔ لہٰذا میں نے ملاقات پر یاد دہانی کرانے کا فیصلہ کیا۔ لیکن بیگ میں ریوالور اور گولیوں کے ڈبے کے ساتھ ایک چھوٹے سے چرمی سگریٹ کیس کی موجودگی کی وجہ سمجھ نہیں آئی۔ میں اپنے دوستوں کی صحبت میں ہفتہ دس دن میں ایک آدھ سگریٹ پی لیا کرتا تھا، لیکن میں نے کبھی سگریٹ کا پیکٹ نہیں خریدا تھا۔ اور یہ قیمتی سگریٹ کیس تو کسی بہت ہی باذوق اور نفیس طبع تمباکو نوش کے مطلب کی چیز تھی۔ میں نے محض تجسس کے تحت سگریٹ کیس کا بغور جائزہ لیا تو مجھے اس کے اندر کاغذ کا ایک تہہ شدہ رقعہ دکھائی دیا۔ میں نے اسے نکال کر کھولا تو اس پر میرے نام ایک پیغام درج تھا۔
’’ڈیئر جمال، اپنے شہید ساتھی کو ہم نے لٹویا کی ایجاد مائنوکس کیمرا برش کے دستے میںچھپا کر دیا تھا، لیکن میرے خیال میں وہ تمہارے لیے مناسب نہیں رہے گا، کیونکہ تمہیں وہ چھپاکر استعمال کرنا پڑے گا۔ اسی لیے میں نے تمہارے لیے سوئٹزر لینڈ کے زبردست خفیہ کیمرے ٹیزینا کا بندوبست کیا ہے ۔ اس جدید ترین کیمرے سے تم ہاتھ کی معمولی جنبش سے بے دھڑک سب کے سامنے تصویریں اتار سکتے ہو۔ جبکہ کسی کو تمہاری کار گزاری کی کانوں کان خبر نہیں ہوگی‘‘۔
افتخار صاحب نے اس حیرت انگیز کیمرے کے استعمال کا طریقہ بھی بتایا تھا۔ سب سے اچھی بات یہ تھی کہ اس کے ذریعے دستاویزات کی تصویریں بھی باآسانی اتاری جا سکتی تھیں۔ میں نے باریک بینی سے جائزہ لیا تو مجھے سگریٹ کیس کے پہلو میں گہرے بھورے چمڑے میں بظاہر ڈیزائن کے طور پر بنائے گئے درجنوں چھیدوں میں کیمرا لینس پوشیدہ ہونے کا گمان گزرا۔ سگریٹ کیس کا یہی رخ مطلوبہ ہدف کی طرف کرکے خفیہ بٹن دبانے کی ہدایت کی گئی تھی۔ وہ خفیہ کیمرا مجھے انجنیئرنگ کا نادر شاہکار نظر آیا۔ میرا اندازہ تھا کہ وہ خاصا مہنگا بھی ہوگا۔
سورج ڈھلنے کا وقت قریب آنے پر میں مقررہ ورک شاپ کے پاس پہنچ کر آس پاس منڈلانے لگا۔ وہ خاصا گنجان آباد علاقہ تھا، جہاں کھانے پینے کی بھی بہت سی دکانیں تھیں۔ میں نے ایک سستے سے ایرانی ریستوران سے کھانا کھایا۔ میں نے بل چکایا ہی تھا کہ اسلم رکشا ورک شاپ کی طرف آتا نظر آیا۔ میں نے اسے ورک شاپ پر پہنچنے سے پہلے ہی ہاتھ دے کر روک لیا اور میرے ٹھکانے پر چھوڑنے کی فرمائش کی۔ میں نے راستے میں اسے افتخار صاحب کے نام جلد از جلد ملاقات کا پیغام پہنچانے کو کہا۔ اسلم نے وعدہ کیا کہ وہ کل شام مجھے افتخار صاحب کا جواب پہنچا دے گا۔ اگلے روز اس نے واقعی افتخار صاحب سے ملاقات کا وقت اور طریقہ بتا دیا۔ مجھے اس کی بتائی ترکیب سن کر ہنسی تو آئی، لیکن اس کی ذہانت کی داد بھی دینا پڑی۔ بلاشبہ دشمن کے ملک میں غیر معمولی ذہانت استعمال کیے بغیر رہ کر اپنا کام نکالنا آسان نہیں ہوتا۔
دو دن بعد اتوار کے روز میں کھجور کی پتیوں سے بنی ایک ٹوکری اٹھائے، مزدوروں کے حلیے میں ایک مصروف سبزی منڈی کے باہر موجود تھا۔ یہ مزدوری حاصل کرنے کے لیے مجھے منڈی کے مزدوروں کے سرغنہ کو پیشگی دو روپے بھتا دینا پڑا۔ مجھے فوراً ہی مزدوری ملنا شروع ہوگئی اور میں نے چار پانچ پھیروں میں ہی اپنی خرچ کردہ دو روپے وصول کرلیے، جس کے بعد میری اصل کمائی شروع ہو گئی۔
میں نے لگ بھگ پانچ روپے کمائے تھے کہ افتخار صاحب کی گاڑی دھیرے دھیرے منڈی کی طرف بڑھتی نظر آئی۔ میں نے مزدوری طے کرنے کے لیے بھاؤ تاؤ کرتی ایک ہریانوی عورت سے معذرت کی اور اپنی ٹوکری اٹھائے سڑک کے کنارے جا پہنچا۔ افتخار صاحب نے ڈرائیور کو میرے قریب پہنچنے پر گاڑی روکنے کو کہا اور اسے سائیڈ پر گاڑی لگاکر انتظارکرنے کو کہا۔ اس اثنا میں مجھے ان کے قریب پہنچنے کا موقع مل گیا ’’بابو جی بھاجی اٹھان کے لیے مجدور چیئے ہے؟‘‘۔
انہوں نے کہا ’’ہاں، کیا لوگے؟‘‘۔
میں نے عاجزی سے کہا ’’جو مرجی ہو دے دینا بابو جی!‘‘۔
انہوں نے سخت لہجے میںکہا ’’ڈیڑھ روپیہ ملے گا، اور فالتو وقت لگنے پر یا سبزی زیادہ دیکھ کر شور مچایا تو اچھا نہیں ہوگا، سمجھے؟‘‘۔
میں نے یقین دلایا کہ میں کوئی لپھڑے بازی نہیں کروں گا۔ انہوں نے اطمینان کے اظہار کے لیے سر ہلایا اور مجھے اپنے پیچھے آنے کا کہہ کر سبزی منڈی میں داخل ہو گئے۔ ڈیڑھ درجن کے قریب سبزی اور پھلوں کی دکانوں اور پتھاروں کا چکر لگاتے، بھاؤ تاؤ کرتے لگ بھگ ایک گھنٹے میں انہوں نے میری تمام گزارشات بغور سن لیں اور ان کا ذہنی تجزیہ کرنے کے بعد کچھ ترمیم و اضافوں کے ساتھ سچن بھنڈاری پر قسمت آزمائی کی اجازت دے دی۔ ساتھ ہی یہ بھی بتایا کہ منصوبے کے ابتدائی مراحل کی تکمیل کے بعد اسی طرح کی، لیکن نسبتاً یکسوئی والے ماحول میں ایک اور ملاقات کی جائے گی اور میر ی کاوشوں کے نتائج کے مطابق منصوبے پر ایک بار پھر غور کیا جائے گا۔
میں سبزیوں سے لدی ٹوکری اٹھائے ان کے ساتھ لشتم پشتم گاڑی تک پہنچا تو ڈرائیور اخبار منہ پر ڈالے خراٹے لے رہا تھا۔ نیند خراب کیے جانے پر اس نے بُرا سا منہ بنایا۔ افتخار صاحب نے طے شدہ مزدوری کے ساتھ آٹھ آنے بخشش بھی دی تو میں نے دونوں ہاتھ سر پر رکھ کر ان کا شکریہ ادا کیا اور سبزیاں گاڑی کی ڈگی میں رکھوانے میں بھی پُرجوش مدد کی۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment