فیصل آباد میں تصادم کا آغاز قادیانیوں نے کیا

محمد زبیر خان
عید کے دوسرے روز فیصل آباد میں قادیانیوں اور مسلمانوں کے درمیان تصادم میں اٹھارہ افراد زخمی ہوئے۔ تصادم کا آغاز مرزائیوں کی جانب سے امام مسجد کو تشدد کا نشانہ بنانے پر ہوا۔ علاقے میں مسلمانوں کے اکٹھا ہوجانے کے بعد قادیانی اپنی عبادت گاہ میں قائم مورچوں سے فائرنگ کرتے رہے۔ پندرہ مسلمانوں کے زخمی ہونے پر اپنی عبادت گاہ میں بھی خود آگ لگائی۔ جبکہ قادیانی سی سی ٹی وی کیمروں کی فوٹیج بھی پولیس کو نہیں دے رہی۔ خدشہ ہے کہ جرائم پر پردی ڈالنے کیلئے ان فوٹیج کو ضائع نہ کردیا جائے۔ دوسری جانب عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت نے احتجاج کی دھمکی دے دی ہے۔
واضح رہے کہ عید کے دوسرے روز فیصل آباد میں قادیانیوں اور مسلمانوں کے درمیان تصادم ہوا، جس میں مقامی اور سرکاری ذرائع کے مطابق تیرہ مسلمان اور پانچ مرزائی زخمی ہوئے ہیں۔ محکمہ صحت کے ذرائع کے مطابق تیرہ افراد جو مسلمان ہیں، گولیاں لگنے سے زخمی ہوئے اور ان میں سے بعض کی حالت تشویشناک ہے۔ جبکہ پانچ مرزائیوں کو پتھر وغیرہ لگنے سے چوٹیں آئی ہیں۔ مقامی زرائع کے مطابق کچھ عرصہ قبل مرزائیوں نے اپنے عبادت گاہ بیت الذکر کے علاوہ ایک اور عبادت گاہ کی تعمیر کا کام شروع کیا، جس پر مسلمانوں نے اعتراض کیا کہ علاقے میں پہلے ہی ان کی عبادت گاہ موجود ہے، جو ان کی ضرورت کو احسن طریقہ سے پورا کر رہی ہے، لہذا دوسری عبادت گاہ کی ضرورت نہیں۔ جس پر علاقے میں کشیدگی پیدا ہوئی، تاہم قادیانیوں نے مقامی پولیس اور انتظامیہ کو لکھ کر دیا کہ وہ شعائر اسلام کی پاسداری کریں گے۔ تاہم اس کے باوجود قادیانیوں کی شر انگیزی جاری رہی اور وہ علاقے میں موجود مسلمان ہمسایوں کو تنگ کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے تھے۔ ذرائع کے مطابق حالیہ تصادم کا آغاز عید سے قبل کا ایک واقعہ بنا ہے، جس میں قادیانیوں کے گھروں کی مرغیاں ایک مسلمان کے گھر میں چلی گئیں تھیں اور وہ مسلمان گھرانہ مرغیاں یا کوئی بھی پالتو جانور وغیرہ نہیں رکھتا۔ انہوں نے قادیانیوں کو پیغام بھجوایا کہ اپنی مرغیاں آکر لے جائیں، یہ پریشان کرتی ہیں۔ اس پر مرزائیوں نے مسلمان گھرانے سے تلخ کلامی کی اور پھر موقع پر موجود قادیانیوں نے اس گھر کے واحد مرد کو تشددکا نشانہ بنایا۔ جب اس واقعے کی اطلاع مقامی امام مسجد کو ملی تو انہوں نے فی الفور مداخلت کی اور مذکورہ شخص کو مرزائیوں سے چھڑایا۔ مقامی ذرائع کے بقول یہ مداخلت مرزائیوں کو ہضم نہیں ہوئی اور انہوں نے تھوڑی دیر بعد اس مقام سے گزرنے والے امام مسجد کو گھیر لیا اور انہیں بھی تشدد کا نشانہ بنانا شروع کر دیا۔ جب مسلمانوں کو اطلاع ملی تو وہ موقع پر اکٹھے ہوگئے اور انہوں نے مرزائیوں پر حملہ کر دیا۔ اس موقع پر قادیانیوں نے فائرنگ شروع کردی اور فرار ہوکر اپنی عبادت گاہ میں گھس گئے اور وہاں بنے مورچوں سے مسلمانوں پر اندھا دھند فائرنگ شروع کر دی۔ جواب میں مسلمانوں نے بھی پتھراؤ کیا۔ بعد ازاں پولیس کی بھاری نفری نے موقع پر پہنچ کر معاملہ کنٹرول کرلیا۔ پولیس ذرائع کے مطابق پولیس نے اپنی مدعیت میں دونوں اطراف کے لوگوں پر مقدمہ درج کیا ہے۔ واضح رہے کہ جماعت احمدیہ کے ترجمان سلیم الدین نے اپنے ٹویٹر اکائونٹ میں تسلیم کیا ہے کہ واقعہ دو افراد کے درمیان تصادم کا نتیجہ تھا۔ تاہم انہوں نے واقعہ کی مزید تفصیلات بیان نہیں کیں۔ ’’امت‘‘ کے رابطہ کرنے پر جواب بھی نہیں دیا۔
پولیس ذرائع نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ حالات پر قابو پانے کے فوراً بعد پولیس کے اعلیٰ افسران جو موقع پر پہنچ گئے تھے، نے سی سی ٹی وی کیمروں کی فوٹیج طلب کی۔ لیکن یہ فوٹیج مرزائیوں کی جانب سے اب تک فراہم نہیں کی گئی ہیں۔ ان ذرائع کے مطابق پولیس افسران فوٹیج سے مرزائیوں کے دعوے کی تصدیق کرنا چاہتے تھے کہ ان کی عبادت گاہ میں مقامی مسلمانوں نے آگ لگائی ہے اور ان پر حملہ کیا ہے۔ کیونکہ موقع پر ایسی کوئی علامت نہیں ملی کہ عبادت گاہ پر باہر سے حملہ ہوا ہو۔ تاہم ایسے شواہد ضرور ملے ہیں جس سے پتا چلتا ہے کہ عمارت میں بنے مورچوں سے مسلمانوں کی طرف فائرنگ کی گئی اور وہاں سے گولیوں کے خول بھی بر آمد ہوئے ہیں۔ ان ذرائع کا کہنا ہے کہ پولیس دونوں زاویوں سے واقعے کی تفتیش کر رہی ہے۔
فیصل آباد میں موجود عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے مبلغ مولانا عبدالرشید نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ فیصل آباد اور اردگرد کے علاقوں میں قادیانیوں کی چیرہ دستیاں کئی عرصے سے بڑھ گئی تھیں اور اس حوالے سے انتظامیہ کو باقاعدہ شکایت بھی کی گئی تھی، مگر کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔ حالیہ تصادم کی بنیاد ایک مقامی مسلمان شخص پر قادیانیوں کا حملہ بنا۔ اس مسلمان کو مقامی امام مسجد مولانا شکور نے مرزائیوں کے تشدد سے بچایا تو بعد میں مرزائیوں نے ان امام مسجد پر بھی حملہ کر دیا اور تشدد کا نشانہ بنایا۔ جب یہ اطلاع مسلمانوں تک پہنچی تو وہ بھی مشتعل ہوئے اور ری ایکشن ہوا۔ ایک سوال پر مولانا عبدالرشید کا کہنا تھا کہ ’’مرزائیوں نے اپنی عبادت گاہ کو خود نذر آتش کیا ہے۔ سارا فیصل آباد، پولیس، اور دیگر قانون نافذ کرنے والے ادارے دیکھ رہے تھے کہ قادیانیوں نے اپنے مورچوں پر سے فائرنگ کی اور جواب میں مسلمانوں نے پتھراؤ کیا۔ اگر اس واقعے کی صاف شفاف تفتیش ہو تو پتا چل جائے گا کہ قادیانیوں نے اپنی عبادت گاہ کو خود آگ لگائی ہے اور یہ آگ صرف مخصوص حصوں ہی میں لگائی گئی ہے‘‘۔
ادھر عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے ترجمان مولانا عزیز الرحمن نے ’’امت‘‘ کے ساتھ بات کرتے ہوئے کہا کہ ’’صوبائی حکومت کے نوٹس میں ہے کہ فیصل آباد اور شیخوپورہ میں مرزائی شرارتیں کر رہے ہیں، مگر ان شکایات پر کوئی نوٹس نہیں لیا گیا۔ اب تک پولیس کو دی جانے والی درخواست پر کوئی ایف آئی آر بھی درج نہیں ہوئی اور اس پر کوئی تفتیش بھی نہیں کی جا رہی۔ ہم نے مسلمانوں کے اشتعال کو کنٹرول کیا ہوا ہے۔ مگر کارروائی نہ کی گئی تو پھر پورے ملک میں احتجاج کیا جائے گا۔
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment