وجیہ احمد صدیقی
امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو اور وزیر اعظم عمران خان کے درمیان ٹیلی فونک گفتگو کے حوالے سے امریکی دفتر خارجہ کا کہنا ہے کہ عمران خان نے یقین دلایا ہے کہ پاکستان اپنی حدود میں سرگرم تمام دہشت گردوں کے خلاف فیصلہ کن کارروائی کرے گا۔ دوسری جانب امریکی دفتر خارجہ کی جانب سے جاری ہونے والے اس بیان کی فوری تردید پاکستانی دفتر خارجہ کے ترجمان ڈاکٹر فیصل نے اپنے ٹویٹ میں کردی ہے۔ ڈاکٹر فیصل کے مطابق عمران خان کی امریکی وزیر خارجہ کے ساتھ گفتگو میں پاکستان میں سرگرم دہشت گردوں کا کوئی ذکر نہیں ہوا۔ اس معاملے سے متعلق معروف دفاعی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے امریکی دفتر خارجہ کا مقصد نو منتخب پاکستانی حکومت کو پریشر میں لے کر آزادانہ خارجہ پالیسی بنانے سے روکنا ہے۔ کیونکہ وائٹ ہائوس اسلام آباد کے روس اور چین سے بڑھتے روابط کو تشویش کی نظر سے دیکھ رہا ہے۔
دوسری جانب پاکستانی دفتر خارجہ کے ذرائع نے بتایا ہے کہ پومپیو اور عمران خان کے درمیان ایسی کوئی بات نہیں ہوئی جس میں پاکستان میں موجود دہشت گردوں کے خلاف کسی کارروائی کا ذکر ہوا ہو۔ بلکہ امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ نے ضرورت سے زیادہ چالاکی دکھانے کی کوشش کی ہے۔ ان ذرائع نے بتایا کہ اتنی اعلیٰ سطح پر ٹیلی فونک گفتگو کا ریکارڈ موجود رہتا ہے، اسی لیے ترجمان دفتر خارجہ نے فوری طور پر امریکی دفتر خارجہ کے بیان کی تردید کی۔ جبکہ امریکی دفتر خارجہ کا کہنا ہے کہ وہ وزیراعظم عمران خان اور امریکی وزیرِ خارجہ کے درمیان ہونے والی بات چیت کے متن کے حوالے سے اپنے بیان پر قائم ہے۔ واضح رہے کہ پاکستانی وزارت خارجہ کے ترجمان ڈاکٹر محمد فیصل نے ٹوئٹر پر وضاحت جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستانی دفتر خارجہ، عمران خان اور مائیک پومپیو کی فون پر گفتگو کے بارے میں امریکی وزارتِ خارجہ کی جانب سے جاری کردہ غلط بیان سے اختلاف کرتا ہے۔ ادھر ستمبر کے پہلے ہفتے میں امریکی وزیر خارجہ پاکستان آرہے ہیں اور پاکستانی دفتر خارجہ کی جانب سے امریکی وزیر خارجہ کے بیان کی تردید سے یہ ظاہر ہورہا ہے کہ امریکی وزیر خارجہ کی پاکستان آمد پر ان کا ایجنڈا یہی ہوگا جس کا ذکر امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ سے جاری پیغام میں کیا گیا ہے۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے بھی جمعہ کو اپنی بریفنگ میں اس بات کی سختی سے تردید کی کہ امریکی سیکریٹری خارجہ کے ساتھ وزیر اعظم کی گفتگو میں پاکستان میں سرگرم دہشت گردوں کے حوالے سے کوئی بات ہوئی تھی۔ خارجہ امور کے تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ امریکہ، عمران خان پر دبائو ڈال کر آزادانہ خارجہ پالیسی کو روکنا چاہتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دبائو بڑھانے کیلئے امریکی وزیر خارجہ پاکستان آرہے ہیں۔ اب یہ عمران خان کا امتحان ہے کہ وہ کس طرح امریکی دبائو کو رد کرتے ہیں ۔
عسکری تجزیہ نگار جنرل (ر) امجد شعیب کا ’’امت‘‘ سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ’’امریکہ کی ہمیشہ سے یہی کوشش رہی ہے کہ پاکستان میں دہشت گردگروپوں کی موجودگی کو ثابت کیا جائے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں ایسے گروپ موجود ہی نہیں ہیں جن کے بارے میں امریکہ نے کہا ہے۔ امریکہ کی پریشانی ہمیشہ افغان طالبان کے حوالے سے رہی ہے کہ وہ ان کا مقابلہ نہیں کرپا رہا۔ پاکستان پر دبائو کیلئے امریکہ نے ہمیشہ اپنا موقف اور نظریہ تبدیل کیا ہے۔ اس وقت بھارت اور امریکہ کا ایک ہی مقصد ہے کہ وہ پاکستان پر اپنا دبائو بڑھائیں۔ وہ پاکستان کو ایک دہشت گرد ملک ثابت کرنا چاہتے ہیں۔ اسی لیے پاکستان کا نام ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ میں ڈالا گیا ہے تاکہ پاکستان پر دہشت گردوں کی فنڈنگ کا الزام لگایا جاسکے۔ امریکہ کی خواہش ہے کہ پاکستان افغان طالبان پر دبائو ڈالے کہ وہ امریکی شرائط پر مذاکرات کیلئے آمادہ ہوجائیں۔ لیکن پاکستان اس پوزیشن میں نہیں ہے کہ وہ افغان طالبان کو مجبور کرسکے کہ وہ امریکہ کے ساتھ مذاکرات کیلئے تیار ہوجائیں۔‘‘ جنرل (ر) امجد شعیب کا کہنا تھا کہ ’’امریکہ نے پاکستان کی مدد کے بغیر قطر میں افغان طالبان سے مذاکرات شروع کئے، لیکن اسے ناکامی ہوئی۔ افغان طالبان اب روس کے مشورے کے بغیر امریکہ سے مذاکرات نہیں کریں گے۔ افغان طالبان نے حال ہی میں صدر اشرف غنی کی جنگ بندی اور مذاکرات کی پیش کش کو مسترد کیا ہے۔ اب صورت حال یہ ہے کہ افغان طالبان کی مدد روس، چین اور ایران کررہے ہیں، جبکہ پاکستان بھی اس گروپ میں شامل ہے۔ کیونکہ یہ ممالک خطے میں امن کے خواہش مند ہیں۔ امریکہ، روس کی ان کوششوں کو ناکام بنانا چاہتا ہے، اسی لئے پاکستان کو دبائو میں لانے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔ عمران خان کے ساتھ گفتگو میں پاکستان میں سرگرم دہشت گردوں کا ذکر اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ حالانکہ پاکستان نے دہشت گردوں کے خلاف مختلف آپریشن کرکے انہیں اپنے علاقوں سے نکال دیا ہے۔ لیکن امریکہ کی خواہش یہ ہے کہ جسے وہ اور بھارت دہشت گرد کہہ دے، اسے ہم بھی دہشت گرد تسلیم کرلیں۔ وہ آزادی کی تحریکوں کو بھی دہشت گردی قرار دیتا ہے۔ وہ حافظ سعیدکو صرف اس لئے دہشت گرد کہتا ہے کہ وہ بھارت کی نظر میں دہشت گرد ہیں۔‘‘
بریگیڈیئر (ر) آصف ہارون کا ’’امت‘‘ سے بات کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ’’امریکی وزیر خارجہ کی جانب سے ماضی میں بھی ایسی باتیں کی جاتی رہی ہیں لیکن پاکستان کی جانب سے اس پر کوئی رد عمل نہیں دیا جاتا تھا۔ امریکہ اپنا موقف دوسرے پر ٹھونسنے کا عادی ہے۔ 2001ء سے لے کر آج تک پاکستان کو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں زبردستی الجھایا گیا۔ کبھی ہمیں اس جنگ میں فرنٹ اسٹیٹ کہا گیا اور کبھی نان نیٹو اتحادی کے لقب سے نوازا گیا۔ پاکستان نے اس جنگ میں اربوں ڈالر کا نقصان اٹھایا، لیکن امریکہ نے دہشت گردوں کی مدد کا الزام بھی پاکستان پر ہی لگایا۔‘‘ بریگیڈیئر (ر) آصف ہارون کا مزید کہنا تھا کہ ’’عمران خان کو اگر امریکی دائو پیچ سے بچنا ہے تو خود کو پرو ایکٹو کرنا ہوگا۔ امریکہ اور بھارت دونوں الزامات اور دبائو کی سفارت کاری کرتے ہیں، ان کے مقابلے میں پاکستان کی حکومت کو ڈٹ جانا ہوگا ورنہ امریکی یہی کچھ کرتے رہیں گے جو انہوں نے پہلی فون کال پر کیا ہے‘‘۔
٭٭٭٭٭