نومسلم خاتون کا حیرت انگیز واقعہ

حصہ اول
محترمہ آمنہ سیاہ فام امریکی خاتون ہیں، جو اپنی سماجی خدمات کی وجہ سے عالمگیر شہرت رکھتی ہیں۔ 1980ء میں جو کتاب شائع ہوئی، اس کے مطابق ساڑھے تین سو افراد نے ان کی ترغیب سے منشیات سے توبہ کی تھی اور اکیس مرد و زن نے اسلام قبول کر لیا تھا۔
قابل ذکر امر یہ ہے کہ ’’شگاگو نیوز‘‘ سے وابستہ زبردست صلاحیتوں کی حامل یہ صحافی خاتون جسمانی اعتبار سے معذور ہے۔ وہ شگاگو کے سلم نامی حبشیوں کے ایک ایسے محلے میں پیدا ہوئی جو غلاظت، جرائم، منشیات اور غربت و افلاس کا گڑھ تھا، اس کا پیدائشی نام سنتھیا تھا اور اس کا باپ بھی اکثر حبشیوں کی طرح آوارہ منش، نشہ باز اور جرائم پیشہ آدمی تھا اور اس کی ماں ہی سفید فاموں کے گھروں میں مزدوری کرکے گھر کا خرچہ چلاتی تھی۔ باپ کی لاپروائی اور سنگدلی کی وجہ سے وہ بہت بچپن میں پولیو کا شکار ہوگئی، مگر وہ غیر معمولی ذہنی صلاحیتوں کی مالک تھی، پانچ سال کی عمر میں اس کی ماں ایک سستی پہیوں والی کرسی خرید لائی اور اسے ایک اسکول میں چھوڑ آئی، سنتھیا نے جب سے بولنا شروع کیا تھا اور بار بار کہا کرتی تھی: میں اسکول جاؤں گی، میں اسکول جاؤں گی۔
سنتھیا بڑی سمجھدار اور ذہین بچی تھی، وہ اپنی کرسی کو گھسٹیتی ہوئی اسکول چلی جاتی، گھر آجاتی اور کتابیں پڑھتی رہتی، اس کے اساتذہ اس کی ذہانت سے بہت متاثر تھے، وہ بڑی صابر اور باہمت بچی تھی، وہ کسی احساس کمتری میں مبتلا نہ ہوئی، دوسرے بچوں کو بھاگتے دوڑتے دیکھ کر کبھی آنسو بہاتی، نہ پریشان ہوتی، بلکہ سر جھکائے بڑے اطمینان اور یکسوئی سے مطالعہ کرتی رہتی۔ اس نے اسکول میں اپنی ذہانت کی دھاک بٹھا دی تھی، اسے ہر سال انعام ملا کرتا تھا۔ وقت گزرتا گیا اور سنتھیا سترہ سال کی ہوگئی، اس نے اسکول کی تعلیم مکمل کرلی اور اب یونیورسٹی میں داخلہ لینا تھا، چونکہ اس کی اعلیٰ تعلیمی کارکردگی اور ذہانت سے سبھی متاثر تھے، اس لئے اسے وظیفہ مل گیا اور پانچ برس تک یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کرتی رہی اور اعزاز کے ساتھ اسے مکمل کیا اور ایک مقامی اخبار ’’شگاگو نیوز‘‘ میں اسے ملازمت مل گئی۔
یہی وہ زمانہ تھا جب سنتھیا امریکہ کے مشہور سیاہ فام رہنما میلکم ریکس کے کردار سے متعارف ہوئی، موصوف مشہور و معروف جرائم پیشہ اور منشیات فروش حبشی تھا، وہ بے شمار سنگین وارداتوں میں ملوث تھا اور زندگی کا بڑا حصہ جیلوں میں گزار چکا تھا، پھر خدا کا کرنا یہ ہوا کہ میلکم مسلمان ہوگیا اور نہ صرف اس کی اپنی زندگی میں زبردست انقلاب آگیا اور وہ ایک صالح پاکباز انسان بن گیا، بلکہ اس کی تبلیغ و تربیت سے ہزاروں سیاہ فام لوگوں کی زندگیاں بدل گئیں، اس نے سینکڑوں ایسے رضا کار تیار کئے، جو خاص طور پر حبشیوں کو راہ راست پر لانے اور ان کو نشے سے نجات دلانے کے لئے دن رات کوشاں رہتے تھے، یہ ایک نئی تحریک تھی، ایک نیا انقلاب تھا، جو آہستہ آہستہ امریکہ کے حبشیوں میں آرہا تھا اور جو انہیں وقار سے زندہ رہنا سکھا رہا تھا۔ سنتھیا میلکم ایکس کی زندگی کے دونوں پہلوؤں سے واقف تھی، اس لئے اس کے دل و دماغ نے مذہب اسلام سے بھی گہرا اثر قبول کیا تھا اور چونکہ وہ مطالعے کی رسیا تھی، اس لئے اس نے اسلام کے بارے میں بہت کچھ پڑھ ڈالا اور اسے اپنے تصورات اور انسانی فطرت کے عین مطابق پایا تو اسے قبول کر لیا اور ایک روز جبکہ حسب معمول اس کا والد شراب کے نشے میں دھت اس کی ماں کی پٹائی کرنے والا تھا، اس نے اپنے باپ کو سمجھانا شروع کردیا اور ماں کو صبر کی تلقین کرنے لگی اور گفتگو کی تیزی میں انہیں بتا دیا کہ وہ اسلام قبول کر چکی ہے، اس کے بعد جو کچھ ہوا، اسے خود سنتھیا بلکہ آمنہ کی زبانی سنئے…
میرے والدین کے لئے ’’مسلمان‘‘ کا لفظ اجنبی نہ تھا، میں نہیں جانتی کہ اسلام اور اسلام کے پیروکاروں کے بارے میں امریکیوں کا رویہ بلا رنگ و نسل کیوں معاندانہ اور مخالفانہ ہے۔ میری زبان سے یہ سننے کے بعد میں مسلمان ہو چکی ہوں، میرے والدین کو بے حد تعجب ہوا، خاص طور پر میری ماں کو بے پناہ صدمہ ہوا، اس کا یہ ردعمل میرے لئے بہت پریشان کن تھا۔ میں اسے ایک مظلوم عورت سمجھتی تھی، میرا خیال تھا کہ وہ میرے مسلمان ہونے پر زیادہ واویلا نہ کرے گی، مگر ہوا اس کے برعکس۔ میرے والد کے چہرے پر نفرت، حقارت اور استہزاء کے ساتھ ساتھ لاپروائی کی جھلک بھی دکھائی دے رہی تھی اور میری ماں مسلسل بولتی جا رہی تھی۔ آج جب وہ منظر مجھے یاد آتا ہے تو میں بے اختیار مسکرا دیتی ہوں، لیکن اس وقت میرا ردعمل کچھ مختلف تھا۔ (جاری ہے)

Comments (0)
Add Comment