سلطان علاؤ الدین کی تلوار اندھی تھی اور ہر وقت جلاد کے ہاتھ میں رہتی تھی۔ ایک مرتبہ بھرے دربار میں قاضی غیاث الدینؒ نے بادشاہ سے مخاطب ہوکر فرمایا: بادشاہ سلامت! سرکاری خزانے کو آپ جس طرح اپنے حرم کی وسعت وزبیائش پر ضائع کر رہے ہیں، شریعت محمدیؐ اس کی ہرگز اجازت نہیں دیتی۔ بادشاہ کا چہرہ سرخ ہو گیا، کہا تمہیں میری تلوار کا کوئی خوف نہیں؟
قاضی صاحب نے بادشاہ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالیں اور فرمایا: نہیں میں صرف اور صرف خدا تعالیٰ کی تلوار سے خوفزدہ ہوں۔
سکندر لودھی ابھی تخت نشین نہیں ہوا تھا، ولی عہد تھا۔ وہ ایک ایسے تالاب کو مسمار کرنا چاہتا تھا، جسے ہندو مقدس مانتے تھے۔ اس نے علمائے کرام کو بلا کر رائے لی۔ نام نہاد علماء نے وہی کچھ کہا، جو شہزادہ سننا چاہتا تھا۔ حضرت مولانا میاں عبد الرشیدؒ بھی دربار میں موجود تھے۔ آپ بے خوف و خطر اٹھے اور فرمایا کہ شریعت اسلامی اس کی اجازت نہیںدیتی۔
آپؒ نے فرمایا: دوسرے مذاہب کے ماننے والوں کی دل آزاری کس طرح کی جاسکتی ہے؟ ولی عہد نے الزام لگایا کہ تم بت پرستوں کی حمایت کرتے ہو۔ میں تمہیں قتل کرا دوں گا۔
مولانا میاں عبد الرشیدؒ نے صرف ایک ہی جملہ کہا: شہزادے اگر تمہیں شریعت محمدیؐ کا لحاظ نہیں، تو پھر میری رائے لینے کی کیا مجبوری تھی۔ تاریخ اسلام میں حق گوئی اور بے باک اور صرف خدا سے ڈرنے والے علمائے کرام کے اسمائے گرامی محفوظ ہیں اور مشعل راہ ہیں۔
بقول علامہ محمد اقبال: حالات کے قدموں میں قلندر نہیں گرتا… ٹوٹے کوئی تارہ تو زمین پر نہیں گرتا… گرتے ہیں بڑے شوق سے سمندر میں دریا… لیکن کسی دریا میں سمندر نہیں گرتا۔
ایک حیران کن حکایت:
حضرت ابو جعفر بصریؒ جن کا شمار صلحاء و عظیم بزرگوں میں ہوتا ہے۔ فرماتے ہیں کہ میں نے ایک دن ایک بکری کو زمین پر لٹایا، تاکہ میں اس کو ذبح کروں۔ پس ایک بزرگ، ایوب سختیانیؒ وہاں سے گزرے، تو میں نے چھری زمین پر ڈالی اور ان کے ساتھ کھڑا ہو گیا اور گفتگو کرنے لگا۔ پس ہوا اس طرح کہ اس بکری نے دیوار کے ساتھ ہی اپنے پاؤں سے ایک گڑھا کھودا اور پھر پاؤں سے چھری کو اس گڑھے میں ڈال دیا اور اس پر مٹی ڈال دی۔
یہ منظر دیکھ کر وہ بزرگ سختیانیؒ مجھ سے فرمانے لگے: دیکھو بکری کیا کر رہی ہے، دیکھو بکری کیا کر رہی ہے؟ میں نے اپنی آنکھوں سے یہ عجیب واقعہ جب دیکھا تو اس کے بعد اپنے دل میں پختہ ارادہ کر لیا کہ آج کے بعد میں کسی چیز کو ذبح نہیںکروں گا۔ (حیاۃ الحیوان جلد 1 ص219)
معلوم ہوا کہ ہر جاندار کو اپنی جان پیاری و عزیز ہے۔ اصل میں ان بزرگ کا یہ کہنا کہ میں آئندہ کسی چیز کو ذبح نہیں کروں گا، ان کہ یہ کہنا انفرادی طور پر ہے۔ کیوں کہ انہوں نے بکری کا یہ فعل اور منظر اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا اور دل میں اتنی رقت و نرمی وخوف طاری ہوا کہ آئندہ کسی جانور کو اپنے ہاتھ سے ذبح نہ کرنے کا ارادہ کر لیا۔
دوسرے لوگوں کو سبق حاصل کرنے کے لئے خدا کبھی ایسا کرشمہ دکھا دیتے ہیں۔ حلال جانور کو ذبح کرنے کی شریعت اسلام میں اجازت دے رکھی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حضور اقدسؐ نے فرمایا کہ ایک جانور کو دوسرے کے سامنے ذبح نہ کرو، تاکہ دوسرے جانور کو تکلیف نہ ہو، کیوں کہ ان میں شعور موجود ہے، فقط بات نہیں کر سکتے اور نہ بول سکتے ہیں۔ آپؐ نے فرمایا کہ جس چھری سے جانور ذبح کرتے ہو، اس کو خوب تیز کر لو، تاکہ جانور کو بوقت ذبح زیادہ تکلیف نہ ہو، غور فرمائیں۔ اسلام میں مخلوقات پر رحم و کرم کی کیسی بہترین تعلیم دی ہے۔ (گلدستہ واقعات)