امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو اور پاکستانی وزیر اعظم عمران خان کے درمیان ٹیلی فون پر کیا گفتگو ہوئی تھی، اس کی تفصیل اور وضاحت ان دونوں کے سوا کوئی اور نہیں کر سکتا۔ بدیہی طور پر امریکی وزیر خارجہ نے عمران خان کو پاکستان کا وزیر اعظم منتخب ہونے پر مبارک باد دیتے ہوئے دونوں ملکوں کے درمیان بہتر تعلقات کی ضرورت کا اظہار کیا تھا۔ جبکہ وزیر اعظم عمران خان نے خطے میں قیام امن کے لیے پاکستان کی خدمات اور امریکا سے برابری کی بنیاد پر تعلقات قائم رکھنے پر زور دیا۔ ساری دنیا جانتی ہے کہ اس وقت بھی افغانستان کی دلدل میں پھنسے ہوئے امریکا کو پاکستان کی ضرورت ہے، جبکہ پاکستان اس کا کسی طور بھی محتاج نہیں۔ نئی حکومت کی جانب سے آئی ایم ایف سے کوئی امداد یا قرضہ نہ لینے کا اعلان بھی اس حقیقت کا واضح اظہار ہے۔ تحریک انصاف کی حکومت کب تک اپنے اصولی مؤقف پر ڈٹی رہتی ہے، اس کا اندازہ آئندہ چند روز میں ہو جائے گا۔ اس دوران امریکی محکمہ خارجہ کی ترجمان ہیدر نیوئٹ نے مائیک پومپیو اور عمران خان کے درمیان ہونے والی گفتگو کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ امریکی وزیر خارجہ نے پاکستان میں موجود دہشت گردوں کا معاملہ اٹھایا تھا۔ بعد میں امریکی حکومت کی جانب سے جاری کردہ بیان میں بھی یہی کہا گیا کہ پاکستانی وزیر اعظم کے ساتھ بات چیت میں پاکستان کے اندر سرگرم دہشت گردوں کے خلاف فیصلہ کن کارروائی کے سلسلے میں تبادلہ خیال ہوا تھا۔ دوسری طرف پاکستانی دفتر خارجہ نے مائیک پومپیو کے ٹیلی فون سے متعلق امریکی بیان کو یکسر مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ امریکا کی جانب سے اسے غلط رنگ دینے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ وزیر اعظم عمران خان نے باہمی مفاد اور اعتماد پر مبنی دوطرفہ تعلقات کو مستحکم بنانے پر زور دیا اور خطے میں امن و استحکام کی اہمیت کو اجاگر کیا تھا۔ پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے بھی پومپیو اور عمران خان کی گفتگو کے حوالے سے امریکی مؤقف کو مسترد کر دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ وقت بہت بدل چکا ہے۔ پاکستان اب مغرب کا محبوب نہیں رہا۔ ہم اگر امریکا کے ساتھ تعلقات کو وسعت دینا چاہتے ہیں تو ہمیں افغانستان میں ان کی ضروریات کو سمجھنا ہو گا اور ہمیں بھی امریکا کو اپنے تقاضے سمجھانے ہوں گے۔ وزیراعظم عمران خان کے اس بیان کے برعکس کہ پاکستان کی قومی مفاد پر کوئی سمجھوتا نہیں کیا جائے گا اور خارجہ پالیسی میں پاکستان کے مفاد کو اولین ترجیح دی جائے گی، وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے ایک طرف امریکی مؤقف کو مسترد کیا تو دوسری جانب امریکا کے ساتھ بہتر تعلقات کے لیے افغانستان میں اس کی ضروریات کو سمجھنے کا اشارہ بھی دیا۔ انہوں نے وقت بدلنے کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان اب مغرب (امریکا) کا محبوب نہیں رہا۔ یہ بات بھی تاریخی حقائق سے بالکل مختلف ہے۔ پاکستان کے لوگوں نے کبھی امریکا کو پسند نہیں کیا، تاہم یہاں کی حکومتیں اس کی چاپلوسی کرتی رہیں۔ امریکی انتظامیہ کی مہربانیاں اور نوازشیں پاکستانی حکمرانوں پر تو رہیں، لیکن اسے پاکستان اور اس کے عوام سے کبھی کوئی دلچسپی نہیں رہی۔ امریکا کو پہلے کب پاکستان سے محبت رہی کہ اب کہا جائے کہ پاکستان اس کا محبوب نہیں رہا۔
امریکی غلامی سے نکلنے کا اس سے اچھا وقت نہیں ملے گا، جب امریکا افغانستان سے نکلنے کے لیے ہماری مدد کا محتاج ہے۔ وزیر اعظم عمران خان نے دوٹوک انداز میں کہہ دیا ہے کہ ہم افغان جنگ میں امریکا کے حلیف نہیں، البتہ امن کوششوں میں اس کے ساتھ ہیں، جبکہ اس سے قبل پاکستان کے اکثر حکمران یہ کہتے رہے کہ ہم امریکا کے اتحادی ہیں۔ اسی طرح امریکی حکومتیں صرف اپنا مطلب نکالنے کے لیے پاکستان کو اپنا اگلی صفوں کا اتحادی باور کراتی رہیں۔ لیکن افغانستان میں اپنی سترہ سالہ ناکامی کا کھل کر اعتراف کرنے کے بجائے پاکستان پر دہشت گردی کے فروغ کا الزام بھی لگاتی رہیں۔ طالبان سے براہ راست بات چیت کرنے کے بجائے امریکا پاکستان پر دبائو ڈالتا ہے کہ وہ ان کے ساتھ مذاکرات کا اہتمام کرے۔ اس سے ایک جانب امریکا کی بزدلی اور حوصلے کی پستی ظاہر ہوتی ہے تو دوسری طرف امریکا یہ ثابت کرنا چاہتا ہے کہ افغان طالبان پاکستان کے کنٹرول میں ہیں اور اسی کی سرپرستی میں وہ افغانستان کے اندر دہشت گردی کی کارروائیاں کرتے ہیں۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں طالبان سمیت افغانستان کی کسی تنظیم کا کوئی نیٹ ورک موجود نہیں ہے۔ افواج پاکستان نے ان کے تمام ٹھکانے تباہ کر کے انہیں ہلاک یا ملک بدر کر دیا ہے۔ پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی کی اکا دکا کارروائیاں افغانستان میں موجود انسان و مسلمان دشمن گروہ کرتے ہیں۔ افغان طالبان کا اپنے ملک کے ستر، اسّی فیصد حصے پر قبضہ ہے، جسے اگر امریکا اور کٹھ پتلی افغان حکومت تسلیم کر لے تو اس ملک میں قیام امن مشکل نہ رہے گا۔ امریکا گزشتہ سترہ برسوں میں اپنے لاکھوں اتحادی فوجیوں اور جدید ترین عسکری سازوسامان کے ساتھ طالبان پر قابو نہ پا سکا تو اس کی بنیادی وجہ بھی یہی ہے کہ طالبان کو افغان عوام کی بھرپور تائید و حمایت حاصل ہے۔ امریکا نے اپنے دو شہروں پر حملوں کا ذمے دار اسامہ بن لادن اور اس کی تنظیم القاعدہ کو قرار دیا تھا۔ اب اسامہ دنیا میں ہے نہ القاعدہ افغانستان میں تو امریکا کو شرافت کے ساتھ افغانستان سے نکل آنا چاہئے۔ امریکا کو اس ملک سے کوئی خطرہ بھی نہیں ہو سکتا، کیونکہ طالبان اس کے پڑوس میں ہیں نہ ان کے پاس امریکی اسلحہ اور گولا بارود کا عشر عشیر بھی موجود ہے۔ امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کو ساری دنیا ایک غیر متوازن (ایب نارمل) شخص قرار دے چکی ہے۔ یہ جنونی شخص امریکا کے نا صرف مسلمان ملکوں سے تعلقات خراب کرنے میں پیش پیش ہے، بلکہ اپنے الٹے سیدھے اقدامات کے ذریعے خود امریکا کے شدید جانی و مالی نقصان کا سبب بن رہا ہے۔ جنسی معاملات سمیت کئی اسکینڈل اس کا پیچھا کر رہے ہیں اور اس کے خلاف کسی وقت بھی عدم اعتماد کی تحریک آسکتی ہے۔ امریکا کے دو محکمے، خارجہ اور دفاع، عملاً پورے ملک کا انتظام سنبھالے ہوئے ہیں۔ انہیں اپنی قومی پالیسیوں پر نظرثانی کر کے مسلم ممالک کے ساتھ امریکا کے تعلقات مضبوط و مستحکم بنانے کی ضرورت ہے۔ ایٹمی طاقت، دفاعی صلاحیت، محل وقوع اور تعلیم یافتہ تجربہ کار نوجوانوں کی افرادی قوت کے لحاظ سے پاکستان کو مسلم دنیا کے قائد کی حیثیت حاصل ہے، جسے نظر انداز کر کے امریکا کو کہیں کوئی کامیابی حاصل نہیں ہو سکتی۔ دنیا کی ایک چوتھائی آبادی مسلمانوں پر مشتمل ہے۔ امریکی معیشت میں چین کے بعد مسلم ممالک کا سرمایہ ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس سرمائے کو امریکی بینکوں سے نکالنے کی معمولی دھمکی بھی امریکا کے اقتصادی نظام میں زلزلہ برپا کر سکتی ہے، لہٰذا پاکستان، ایران، ترکی یا کسی اور ملک کو دھمکیاں دینے سے پہلے امریکا کو بدلے ہوئے زمانے میں اپنے موجودہ قد کاٹھ کا اندازہ کر لینا چاہئے۔