احمد نجیب زادے
روس کی جانب سے امریکہ کے سینئر سفارت کاروں کو نکالے جانے کے بعد ماسکو میں سی آئی اے سرگرمیاں ٹھپ ہو گئی ہیں۔ سفارت کاروں کی آڑ میں سرگرم انٹیلی جنس افسران کی پکڑ دھکڑ کے باعث واشنگٹن تک یہ اطلاعات نہیں پہنچ پا رہیں کہ امریکہ کے وسط مدتی انتخابات کیلئے روسی خفیہ ایجنسی کیا حکمت عملی بنا رہی ہے۔ جس کے باعث امریکہ کی پریشانی بڑھ گئی ہے اور روس میں انڈر گراؤنڈ ہونے والے سی آئی اے ایجنٹس محض مواصلاتی نظام کی چھان بینی تک محدود ہیں۔
امریکی انٹیلی جنس سی آئی اے کے اعلیٰ افسران نے دعویٰ کیا ہے کہ کریملن میں تعینات سی آئی اے کے تمام ایجنٹس یکسر خاموش ہیں یا انڈر گرائونڈز جاچکے ہیں، جس کی وجہ سے سی آئی اے ماسکو کا اسٹیشن ویران پڑا ہے اور ماسکو سے واشنگٹن جانے والی خبروں کا تمام ٹریفک جام ہے۔ صدر ولادیمیر پیوٹن کے احکامات پر روسی انٹیلی جنس ایجنسیاں امریکا کے وسط مدتی انتخابات کے بارے میں کیا کرنے والی ہیں؟ امریکیوں کو کچھ معلوم نہیں پڑ رہا ہے۔ واضح رہے کہ وسط مدتی انتخابات یا سینیٹ و امریکی کانگریس کے الیکشن ڈھائی ماہ بعد یعنی نومبر میں ہوں گے۔ روس میں کام کرنیوالے ایک سابق سی آئی اے افسر نے بتایا ہے کہ حالیہ ایام میں روسی حکومت نے سی آئی اے کیلئے کام کرنے والے متعدد سینئر سفارتکاروں کو ماسکو سے نکال دیا ہے۔ امریکی سی آئی اے ڈائریکٹر مائیک پومپیو کو خدشہ ہے کہ روسی انٹیلی جنس ایجنسیاں امریکا میں وسط مدتی الیکشن میں گڑ بڑ کرسکتی ہیں جس کی روک تھام اور معلومات کے حصول کیلئے سی آئی اے اسٹیشن بظاہر ناکام دکھائی دے رہا ہے۔ امریکی جریدے نیو یارک ٹائمز نے ایک رپورٹ میں بتایا ہے کہ ماسکو میں موجود سی آئی اے کے تمام ایجنٹس اور معاون اس وقت مکمل طور پر غیر فعال ہیں اور وہ یا تو خبریں بھیجنے سے معذور ہیں یا روسی انٹیلی جنس کی سخت ترین نگرانی میں مجبور ہوچکے ہیں۔ ادھر دوسری جانب روسی جریدے ٹائمز آف رشیا نے بتایا ہے کہ وسط مدتی انتخابات میں اپنائی جانیوالی روسی حکمت عملی کے بارے میں امریکی سی آئی اے اسٹیشن سے جو input مانگا گیا تو اس سے علم ہوا کہ ماسکو میں سی آئی اے کے ایجنٹس یکسر خاموش ہیں، کیونکہ ماضی میں کئی برسوں میں روسی انٹیلی جنس نے سی آئی اے کے درجنوں ’’اثاثوں‘‘ کو ٹھکانے لگا دیا ہے اور باقی ماندہ ایجنٹس روپوش ہوچکے ہیں۔ ماسکو میں سی آئی اے اسٹیشن کی تقریباً معطلی کے نتیجہ میں امریکی انٹیلی جنس ایجنسیاں ماسکو کے مواصلاتی نظام کو چھاننے اور اپنی معلومات نکالنے تک محدود ہیں، جبکہ سی آئی اے ایجنٹس کیلئے ماسکو شجر ممنوعہ اور علاقہ غیر بنا ہوا ہے جس کے نتیجہ میں اب روس میں کارگزار ایجنٹس کیلئے سی آئی اے کے ہینڈلرز سے بیرون ملک ملاقات کے سوا کوئی اور راستہ باقی نہیں بچا ہے۔ روس میں کارگزار سی آئی اے کے سابق ایجنٹ جان سائیفر نے تصدیق کی ہے کہ اس منظر نامہ میں سی آئی اے کا ماسکو اسٹیشن تقریبا اجڑ چکا ہے اور ایجنٹس قتل کئے جاچکے ہیں یا انڈر گراؤنڈ ہیں کیونکہ ان کو روسی انٹیلی جنس کی جانب سے شدید ترین نگرانی اور معاندانہ کارروائیوں کا سامنا ہے۔ سابق سی آئی اے افسر سائیفر نے تسلیم کیا ہے کہ روسی انٹیلی جنس نے ہمارے ماسکو اسٹیشن کے پورے گروہ کو لات رسید کرکے نکال دیا ہے جبکہ غیر ملکی ایجنسیوں سے مشتبہ رابطہ کے جرم میں متعدد روسی سابق و موجودہ انٹیلی جنس ایجنٹوں کو قتل کروا دیا گیا ہے جن میں کئی ایجنٹس کو برطانوی سرزمین پر قتل کیا گیا ہے۔ امریکی جریدے نیو یارک ٹائمز کا کہنا ہے کہ 2016 میں امریکا میں ہونیوالے صدارتی انتخابات میں جہاں سی آئی اے کا شکوہ تھا کہ روسی انٹیلی جنس نے سنگین مداخلت کی ہے اور امریکی صدارتی انتخابات میں فیورٹ امیدوار ہیلری کلنٹن کو ہروایا ہے تو امریکی سی آئی اے کی جانب سے یہ خدشہ بھی اُجاگر کیا گیا ہے کہ امریکا میں وسط مدتی الیکشن میں بھی روسی انٹیلی جنس مداخلت کرسکتی ہے، اور اس ممکنہ روسی مداخلت کے بارے معلومات کے حصول کیلئے ماسکو میں امریکی سی آئی اے کے اثاثوں کو متحرک کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس ضمن میں سی آئی اے کے ماسکو اسٹیشن کی مدد کیلئے سی آئی اے کی جانب سے متعدد ایجنٹس کو ماسکو اسٹیشن کے تحت تعینات کیا گیا تھا لیکن ان ماہ و سال میں حیران کن طور پر ماسکو میں موجود روسی انٹیلی جنس ایجنسیوں نے سی آئی اے کے ایجنٹس کو کھدیڑ دیا ہے جس سے سی آئی اے کی کارکردگی شدید متاثر ہوئی ہے۔ ایک اعلیٰ سی آئی اے آفیسر کا ماننا ہے کہ ہم اندھیرے میں کھڑے ہیں، لیکن بعض اعلیٰ اہلکاروں کا دعویٰ ہے کہ ان کے ماسکو میں موجود سی آئی اے ایجنٹس قتل یا گرفتار نہیں کئے گئے ہیں بلکہ وہ انتقامی کارروائیوں سے بچنے کیلئے انڈر گرائونڈ جاچکے ہیں۔ تاہم یہ علم نہیں ہے کہ وہ کب منظر عام پر آئیں گے یا اپنا کام دوبارہ سے شروع کریں گے لیکن سی آئی اے ذرائع کا کہنا ہے کہ اس وقت روس میں موجود ان سی آئی اے اثاثوں کا ان سے کوئی رابطہ نہیں ہے، جس کی وجہ سے ان کیلئے معلومات کا حصول دشوار ہوگیا ہے۔ امریکا کے سینئر انٹیلی جنس افسر ڈان کوسٹ سمجھتے ہیں کہ سی آئی اے کے ماسکو میں ہاتھ پیر باندھنے سے ہمیں امریکا کے بارے میں روسی صدر ولادیمیر پیوٹن کی مستقبل کی حکمت عملی کے بارے میں جاننے میں مشکلات کا سامنا ہے۔ واضح رہے کہ سی آئی اے کی روس میں معطل سروس اور سکڑتے حجم کے بارے میں نیو یارک ٹائمز کی اس رپورٹ کی بابت امریکی انٹیلی جنس کے ترجمان نے کوئی رد عمل ظاہر نہیں کیا ہے جبکہ سی آئی اے کے متعلقہ حکام نے روس میں سی آئی اے اسٹیشن یے معلومات جمع کرنے کے محفوظ ترین طریقہ کارکے بارے میں اور گم شدہ ہوجانیوالے ایجنٹس کے بارے میں کوئی تفصیلات فراہم نہیں کی ہیں، لیکن ایک ذریعے کا دعویٰ ہے کہ ماسکو اسٹیشن کی جانب سے ایجنٹس کے ساتھ ساتھ ایسے ماہرین بھی سی آئی اے کے فعال کارکنان ہیں جو کمپیوٹرز ایکسپرٹ ہیں اور معلومات کو انٹرنیٹ یا مواصلاتی نظام سے بھی کھنگال لیتے ہیں، جبکہ سی آئی اے کے پاس متعدد ایسے ماہرین بھی ہیں جو روسی کمپیوٹرز میں گھس بیٹھ کر معلومات جمع کرتے ہیں لیکن روسی انٹیلی جنس اور سیکورٹی کی جانب سے اپنائی جانیوالی جارحانہ حکمت عملی کے سبب ساکت ہیں۔ امریکی جریدے نے بتایا ہے کہ کچھ عرصہ قبل ہی امریکی سی آئی اے کے ایجنٹوں نے اپنی اعلیٰ قیادت کو متنبہ کردیا تھا کہ روسی انٹیلی جنس امریکا کے اندر جاسوسی کرکے نظام کو تلپٹ کرنے کیلئے کام کررہی ہے لیکن جب ان سے اس بارے میں تفصیلات پوچھی گئیں تو ان ایجنٹس نے بتایا کہ اس وقت معلومات کو امریکی سی آئی اے کو فراہم کرنا نا ممکنات میں سے ہے اور اس میں بہت خطرات لاحق ہیں۔ سابق سی آئی اے ڈائریکٹر جان برینن نے مئی2017 میں امریکی ہاؤس انٹیلی جنس کمیٹی کو ایک بریفنگ میں بتایا تھا کہ روسی صدر پیوٹن امریکی انتخابات میں ایسی کوششیں کررہے ہیں کہ ری پبلکن امیدوار ڈونالڈ ٹرمپ جیت جائیں اور وہ امریکا کے جمہوری نظام کو تلپٹ کرڈالیں۔ روسی انٹیلی جنس کے حکام امریکی سی آئی اے کیلئے کام کرنے والے تمام روسیوں کو سبق سکھا دینا چاہتے ہیں کہ وہ راہ راست پر آجائیں یا قتل ہونے کیلئے تیار ہوجائیں۔