دوسری قسط
ابو واسع
اچھو اور چھیدی ابھی کم عمر تھے کہ انہوں نے اپنے باپ کو اپنی آنکھوں سے سامنے قتل ہوتے دیکھا۔ علم دین جو ان کا باپ تھا، اس کے قتل پر صلح تو ہوگئی، لیکن ان دونوں بھائیوں کے دل میں باپ کے قتل کا کانٹا ساری زندگی چبھتا رہا۔ علم دین کے قاتلوں میں سب سے اہم کردار ان کے نزدیک یونس پچر تھا، چنانچہ انہوںنے اسی کچی عمر میں طے کرلیا کہ اس شخص سے اپنے باپ کے قتل کا بدلہ ضرور لیں گے۔ دونوں بھائیوں نے ہتھیار اکھٹے کرنے شروع کردئیے ۔ اس وقت جدید ہتھیار اس قدر عام نہ تھے، سب اہم اسٹین گن سمجھی جاتی تھی۔ اس کے علاوہ بندوق اور پستول ہی اہمیت کے حامل تھے۔
باڑلا خاندان کے علاوہ دیگر لوگوں سے بات کی تو ان کا کہنا تھا کہ ’’اچھو اور چھیدی نے ہتھیار تو اکھٹے کر لئے۔ لیکن ابھی تک انہوں نے کسی پر حملہ نہیں کیا تھا۔ سب سے پہلے گائوں میں ایک لڑائی ہوئی جس میں دونوں اطراف سے گولیاں چلائی گئیں۔ لیکن اس لڑائی میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔ مگر اس لڑائی سے یہ بات واضح ہوگئی کہ یہ دونوں بھائی اب کسی کے قابو میں نہیں آنے والے۔‘‘ ان دونوں کے خاندانی ذرائع کا کہنا تھا کہ اچھو اور چھیدی کو ان کے ایک چچا یوسف اور پھوپھی اس بات پر طعنے دیتے کہ تمہارا باپ تمہارے سامنے قتل کردیا گیا ہے اور تم لوگ بدلہ لینے کے بجائے ڈرپوکوں کی طرح قاتلوں کو معاف کربیٹھے ہو۔ یہی وجہ تھی کہ ان کے دل میں بدلے کی آگ کبھی ٹھنڈی نہ ہوسکی۔ دیگر ذرائع کا کہنا ہے کہ وہ پہلی لڑائی یونس عرف جونا جو پچر اعوان فیملی سے تھا اور جو ان کے والد کے قتل میں ملوث تھا، اس کے ساتھ اس وقت ہوئی جب یونس جیل میں تھا اور اس کابیٹا طفیل اپنے دیگر ساتھیوں کے ساتھ جیپ پر آرہا تھا۔‘‘ اس لڑائی کی تفصیل بتاتے ہوئے کہا گیا کہ اچھو اور چھیدی کے ساتھ ایک شخص بالا گاڈی اور تائو گاڈی آکر شامل ہوئے ۔ یہ راوی کے کنارے ایک گائوں عالم پورہ کے رہنے والے تھے۔ جب اچھو اور چھیدی کا باپ قتل ہوگیا تو بابا انور نے حسین عرف حسینی عالم پوریا کے ساتھ مل کر بالا اور تائو گاڈی کے باپ کوقتل کردیا تھا۔ ان کا تعلق یونس پچر کے ساتھ تھا، چنانچہ بالا اور تائو گاڈی، اچھو اور چھیدی کے ساتھ آکر مل گئے اور یوں باڑلا گینگ کے ان چاروں افراد کا دشمن ایک ہی تھا یعنی یونس عرف جونا پچر جو گاڈیوں کے باپ کے قتل کے مقدمے میں جیل کاٹ رہا تھا۔ حالانکہ ان کے باپ کا قاتل بابا انور اور حسین عرف حسینی عالم پوریا تھا۔ اچھو اور چھیدی کو اس وقت تک سیاسی سپورٹ حاصل ہوچکی تھی اور ان کے پاس جی تھری اور کلاشنکوف تک آچکی تھی۔ اس وقت کلاشنکوف افغانستان سے اسمگل ہوکر پاکستان آنا شروع ہوگئی تھی، جو بہت کم لوگوں کے پاس ہوتی تھی لیکن اچھو اور چھیدی کو یہ مل چکی تھی۔ اس لیے ان کی دھاک بیٹھی ہوئی تھی۔ اس وقت لاہور میں دو چار لوگ اور تھے جن کے پاس کلاشنکوف تھی، جن میں یہ دونوں بھائی بھی شامل تھے۔ یونس پچر پارٹی کے لوگ جیپ پر اسپتال کے پاس دودھ لے کر آرہے تھے۔ دوسری جانب سے اچھو اور چھیدی اپنے چچا گاموں کے ساتھ ٹریکٹر پر آرہے تھے۔ ان کے ساتھ دیگر ساتھی بھی تھے۔ یونس پارٹی کے لوگ اپنے ڈیرے نواں پنڈ جارہے تھے۔ ان کی جیپ میں شوکت لمبا نامی شخص بیمار تھا اور اسے ہیضہ لاحق تھا۔ جیپ میں یونس پچر کا بیٹا طفیل، اختر بوڑا اور یونس کا ایک بھتیجا انورموجود تھے۔ اختر نے جب دیکھا کہ باڑلا پارٹی ہتھیاروں سے لیس ہے اور ان کے پاس صرف ایک بندوق ہے۔ اگرچہ علم دین کے قتل پر یہ دشمنی ختم ہوچکی تھی لیکن ہتھیار جمع کرنے اور گائوں میں پھرنے سے اچھو اورچھیدی کے عزائم واضح تھے کہ وہ باپ کے دشمن سے بدلہ ضرور لیں گے۔ جب دونوں پارٹیاں آمنے سامنے ہوئیں تو اختر نے اپنی بندوق سے ایک ہوائی فائر کردیا۔ انہوںنے جوابی طور پر فائرنگ شروع کردی، اسی طرح ایک دوسرے پر ڈائریکٹ فائرنگ شروع ہوگئی۔ یونس کے بیٹے اور بھتیجے کے پاس کم کارتوس تھے اور ایک ہی بندوق تھی، چنانچہ اختر نے جب دیکھا کہ دوسری سمت سے جدید اسلحے سے فائرنگ ہو رہی ہے تو وہ بھاگ کھڑا ہوا۔ بندوق طفیل نے اٹھا لی اور بھاگتے ہوئے اختر کو گالی دے کر کہا کارتوس کا جھولا (گٹھری) تو پھینک دو۔ چنانچہ اس نے جھولا پھینکا تو وہ کھل گیا اور کارتوس بکھرتے چلے گئے۔ آٹھ، دس کارتوسوں کے ساتھ ملک طفیل اور دیگر لوگ پیچھے ہٹتے گئے اور یوں انہوں نے اپنا بچائو کیا۔ چنانچہ دو تین گھنٹے فائرنگ کے بعد طفیل جو دلیر لڑکا تھا، اپنے ساتھیوں کو نکال لے گیا اور جیپ وہیں چھوڑ دی۔ اس فائرنگ میں انور جو یونس کا بھتیجا تھا اسے پائوں میں فائر لگا تھا، جس سے وہ زخمی ہوگیا تھا۔ باقی کوئی جانی نقصان نہ ہوا۔ اچھو اور چھیدی ان کی جیپ پر قبضہ کرکے گائوں کے اردگرد گھماتے رہے اور ہوائی فائرنگ کرتے رہے، بتانا یہ مقصود تھا کہ انہوںنے اپنے دشمنوں کو بھگا دیا ہے۔ یوں اس لڑائی کے بعد اچھو اور چھیدی کی دہشت پورے علاقے میں پھیل گئی۔
ایک جانب بالا گاڈی اور تائو گاڈی باڑلا گروپ کے ساتھ مل گئے تو دوسری جانب باڑلا گروپ کے ساتھ چھبیل قوم کے کچھ لوگ آکر ملے۔ ان میں سراج اور اس کے بیٹے ملنگی اور بھولی اور تاجو وغیرہ شامل ہوگئے۔ اب باڑلا گروپ بہت مضبو ط ہوگیا تھا، چھبیلوں کا ایک بندہ قتل ہوا تھا، اس کا پرچہ بھی یونس پچر پر ڈال دیا گیا۔ یونس پچر جیل میں تھا، جبکہ اس کے بیٹے طفیل اور محمد حسین وغیرہ ڈیرہ آباد کیے ہوئے تھے۔ ابھی تک دونوں گروپوں کا آمنا سامنا اس طرح نہیں ہوا تھا کہ ایک دوسرے پر ڈائریکٹ فائر کرتے۔ البتہ اب اچھو اور چھیدی نے طے کرلیا تھا کہ انہوں نے باپ کے قاتل یونس پچر کو قتل کرنا ہے۔ دونوں اطراف سے نوجوان خون ابل رہا تھا۔ ایک روز یونس پچر کا بیٹا محمد حسین اور اس کا بھانجا منیر شہر سے واپس آرہے تھے کہ باڑلا گروپ نے ان کا راستہ روک لیا اور انہیں بدترین تشدد کا نشانہ بنایا۔ دونوں کی ٹانگیں توڑ دی گئیں، انہیں قتل کرنے لگے تو چھبیلوںنے منع کردیا کہ ابھی ان کا باپ ہمارے بندے کے قتل میں جیل کاٹ رہا ہے، انہیں مار دیا تو ہم لوگوں پر پرچہ ہوجائے گا۔ چنانچہ اسی طرح انہیں ادھ موا کرکے چھوڑ دیا گیا۔ لوگ انہیں اٹھا کر اسپتال لے گئے۔ باڑلا گروپ نے جب دیکھا کہ اب پچروں کے ڈیرہ کی دیکھ بھال کرنے والا کوئی نہیں تو وہ ان کے ڈیرے پر قبضہ کرنے کو نکل کھڑے ہوئے۔ اس وقت یونس کے ڈیرے پر یونس کا ایک بوڑھا بڑا بھائی اور کچھ ملازم تھے جنہیں تشدد کرکے وہاں سے بھگا دیا گیا اور ڈیرے پر قبضہ کرلیا گیا۔ جب ڈیرے پر قبضہ ہوگیا تو وہاں سے باڑلا گروپ کی دہشت مزید پھیل گئی اور یوں وہ علاقے بھر کے بلاشرکت غیرے مالک بن گئے۔ باڑلا گروپ میں سب لوگ سترہ برس یا اس سے کم عمرکے شامل تھے۔ جب کہ پچر گروپ میں یونس جو جیل میں تھا بہت سمجھدار شخص تھا۔ اسی طرح اس کے بیٹے اوردیگر گروپ کے لوگ بھی بڑی عمر کے پختہ کار تھے۔ بظاہر وہ لوگ اپنے ڈیرے پر قبضہ کو پی گئے تھے لیکن دراصل وہ اپنے ڈیرے کو چھڑانے کیلئے تگ و دو میں مصروف ہوگئے۔ محمد حسین عرف حسینی عالم پوریا، اسی اثناء میں گائوں چھوڑ کر دوسرے علاقے میں چلا گیا۔ ایک روز وہ یونس پچر سے ملاقات کی غرض سے جیل گیا، تو وہاں یونس نے اسے شرم دلائی کہ تم نے علاقہ چھوڑ کر اپنے ڈیرہ بھی باڑلا گروپ کے قبضے میں دے دیا۔ اس وقت حسینی عالم پوریے نے یونس پچر سے کہا کہ وہ ان سے اپنا ڈیرہ بھی واپس لے گا اور علاقے میں جاکر دوبارہ گروپ بھی مضبوط کرے گا۔ چنانچہ وہ واپس گائوں آگیا اور اس نے اپنے گروپ خفیہ طور پر مضبوط کرنا شروع کردیا۔ اس کے گروپ میں جب بارہ پندرہ لوگ ہوگئے تو اب وہ اس تاک میں تھا کہ کسی طرح یونس پچر کا ڈیرہ اچھو اور چھیدی سے واپس حاصل کرئے۔جب کچھ برس قبل یوسف چکڑ قتل ہوا تھا تو اس وقت اس کی سفید گھوڑی باڑلے ہتھیا لے گئے تھے، وہ گھوڑی اس وقت بھی ان کے پاس تھی۔ یہ بہت نایاب نسل کی گھوڑی تھی، جو باڑلے بڑے فخر سے اپنے ساتھ لیے پھرتے تھے۔ ادھر یونس کے ساتھی حسینی کے بارے اچھو اور چھیدی باڑلے کو خبر مل گئی کہ وہ گروپ مضبوط کررہا ہے۔ چنانچہ انہوں نے اس گروپ کی کمر توڑنے کے لیے پلان بنایا۔ گائوں کے ایک موچی کو پچروں کے پاس بھجوایا کہ انہیں کہے کہ یوسف کی گھوڑی ٹریکٹر ٹرالی کے ساتھ بندھی ہوئی ہے ، شاید اچھو یا چھیدی میںسے کوئی وہاں آیا ہوا ہے، اچھا موقع ہے اسے وہاںجالیا جائے اور گھوڑی سمیت اپنے دشمن کا خاتمہ کردیا جائے۔ باڑلا گروپ کے لوگ ٹریکٹر ٹرالی میں لیٹ کر چھپ گئے، جبکہ دیگر لوگوں نے درختوں کے میں گھات لگالی۔ موچی، پچروں کو یہ کہہ کر وہاں لے آیا کہ اچھو یا چھیدی کو بے خبری میںجالیا جائے۔ چنانچہ پچر، حسینی عالم پوریا کے ساتھ جب وہاں پہنچے تو انہوں نے ٹرالی ساتھ گھوڑی بندھی دیکھ لی اور باڑلوں کے ٹریپ میں آگئے، جیسے ہی وہ گھوڑی کے قریب پہنچے، باڑلا گروپ نے ان پر فائرنگ شروع کردی، پچر گھیرے میں آگئے، گھمسان کا رن پڑا۔ دونوں طرف سے بے دریغ فائرنگ کی گئی، اسی اثنا میں حسینی عالم پوریا کی دونوں ٹانگوں پر گولیاں لگ گئیں اور وہ ٹریکٹر ٹرالی کے ٹائر کے ساتھ ٹیک لگا کر دشمنوںپر فائر کرنے گا۔ لیکن باڑلے فائرنگ کرتے ہوئے ان کے اوپر چڑھ آئے۔ پچروںکے ساتھ جو گینگ تھا وہ سب بھاگ نکلے۔اس گینگ میںایک جی دار شخص تھا، اس کا نام خدا جانے کیا تھا، اس نے حسینی عالم پوریا کو کہا کہ میرا شیوہ نہیںہے کہ میںاپنے دوست کو مشکل میں ڈال کر بھاگ نکلوں، چنانچہ اس نے حسینی کو کاندھوں پر اٹھا لیا اور کسی محفوظ مقام کی طرف بھاگ نکلا، اس کے کاندھوں پر سوار حسینی تسلسل سے باڑلوں پر فائرنگ کررہا تھا، لیکن تابکے۔ جس نے حسینی کو اٹھایا ہوا تھا اسے بھی فائر لگ گئے اور وہ گر گیا۔ حسینی عالم پوریا نے اسے کہا کہ تم جان بچائو، میں تمہیں کور دیتا ہوں۔ میں تو بھاگ نہیں سکتا، اب جو ہوگا دیکھا جائے گا۔(جاری ہے)