امریکی وزیر خارجہ پاکستان پر مزید دبائو ڈالنے آرہے ہیں

وجیہ احمد صدیقی
امریکی وزیر خارجہ کے دورے سے متعلق پاکستانی دفتر خارجہ کے ذرائع کا کہنا ہے کہ مائیک پومپیو پاکستان پر مزید دبائو ڈالنے آرہے ہیں۔ ان کی لسٹ میں افغان طالبان کو مذاکرات کی میز تک لانے اور ان کے خلاف کارروائی میں امریکہ کا ساتھ دینے کے مطالبات سب سے اوپر ہوں گے۔ اس کے علاوہ ان کی جانب سے پاکستان کو فوجی تربیتی پروگرام کی بحالی کا لالچ بھی دیا جائے گا۔ دوسری جانب سینیئر دفاعی تجزیہ کار بریگیڈیئر (ر) آصف ہارون کا کہنا ہے کہ بھارت اور امریکہ سی پیک کو بڑا خطرہ سمجھتے ہیں۔
واضح رہے کہ امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو کی 5 ستمبر کو پاکستان آمد متوقع ہے۔ اس حوالے سے خارجہ امور کے ذرائع کا کہنا ہے کہ امریکہ کو افغانستان میں 17سال گزارنے کے بعد بھی کوئی کامیابی اور فتح نصیب نہیں ہوئی ہے۔ اسے یہ حیرانی ہے کہ وہ تھک گیا ہے لیکن افغان طالبان نہیں تھکے۔ امریکہ کی جانب سے بارہا یہ کہا گیا ہے کہ افغانستان میں 17 سال سے جاری بحران کے خاتمے کیلئے افغان طالبان کا مذاکرات میں پیش رفت نہ کرنا اسے قابلِ قبول نہیں۔ اس کے ساتھ ہی امریکا نے پاکستان کو بھی عسکریت پسندوں پر دباؤ ڈالنے کا کہا۔ جبکہ افغان طالبان نے مذاکرات کیلئے اولین شرط یہ رکھی ہے کہ تمام غیر ملکی افواج کی جانب سے افغانستان سے واپس جانے کی حتمی تاریخ کا اعلان کیا جائے۔ افغان طالبان کے حوالے سے امریکہ کے دو متضاد مطالبات ہیں۔ ایک طرف تو یہ مطالبہ ہے کہ پاکستان ان کے خلاف فوجی کارروائی کرے اور دوسری جانب یہ کہا جاتا ہے کہ پاکستان افغان طالبان کو بہلا پھسلا کر مذاکرات کی میز پر لائے۔ امریکہ جانتا ہے کہ خطے میں پاکستان کا کرداربہت اہم ہے۔ امریکہ جانتا ہے کہ اگر پاکستان نے ہمارا ساتھ نہ دیا تو ہمیں اپنے اہداف حاصل کرنے میں سخت مشکل پیش آئے گی۔ لیکن امریکہ پاکستان کو کسی بھی قسم کا کریڈیٹ نہیں لینے دینا چاہتا۔ امریکہ افغانستان میں ناکام ہونے کے باوجود اپنے اہداف کو جبر اور طاقت کے زور پر پورا کرانا چاہتا ہے۔ لیکن پاکستان اس کیلئے تیار نہیں ہے۔ امریکہ کی ضرورت پاکستان کی فوج ہے جس نے امریکہ کی ڈکٹیشن کو مزید ماننے سے انکار کردیا ہے۔
ممتاز عسکری تجزیہ نگار بریگیڈیئر (ر ) آصف ہارون کا ’’امت‘‘ سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ’’پاکستان نے بھی اب اپنے اسٹریٹیجک پارٹنر اور دفاعی ساتھی تبدیل کرلئے ہیں۔ اب چین، پاکستان کا اسٹریٹیجک پارٹنر ہے۔ اب امریکہ کے دونوں اہداف کی راہ میں پاکستان رکاوٹ ہے۔ پاکستان نے چین کی بڑھتی اقتصادی قوت کو مزید توانائی پہنچانے کیلئے سی پیک کے منصوبے کا آغاز کیا تو امریکہ کی پہلے تو یہ حکمت عملی تھی کہ پاکستان سے اس کی ایٹمی صلاحیت کو چھین لیا جائے۔ لیکن اب اس کے ساتھ امریکہ کے ایجنڈے میں یہ بھی شامل ہوگیا ہے کہ سی پیک منصوبے کو کامیاب ہی نہ ہونے دیا جائے۔ کیونکہ سی پیک امریکہ اور بھارت کیلئے نیوکلیر سے بڑا خطرہ بن کر سامنے آگیا ہے۔‘‘ انہوں نے کہا کہ ’’امریکہ کی خواہش ہے کہ وہ کسی بھی طرح افغانستا ن سے عزت سے نکل جائے۔ کیونکہ اس کی معیشت افغانستان میں ڈوب رہی ہے۔ افغان جنگ پر سالانہ 1.3کھرب ڈالر خرچ ہورہا ہے اور نتیجہ یہ ہے کہ کابل سمیت افغانستان کے کسی بھی حصے پر نہ افغان حکومت کا کنٹرول ہے اور نہ وہاں موجود غیر ملکی افواج کا۔‘‘ بریگیڈیئر (ر ) آصف ہارون کا کہنا تھا کہ ’’امریکہ کا پرانا دشمن روس دوبارہ سر اٹھا رہا ہے اور چین بھی نئی سپر پاور بن کر ابھر رہا ہے۔ اس کے اسٹریٹیجک پارٹنر بھارت کا افغانستان میں کوئی کردار نہیں ہے، اس لئے ایک بار پھر پاکستان پر دبائو ڈالنے کیلئے امریکی وزیر خارجہ پومپیو پاکستان آرہے ہیں۔‘‘ ان کا کہنا تھا کہ ’’آج امریکہ اس پوزیشن میں نہیں ہے کہ پاکستان کوڈکٹیشن دے سکے۔ وزیر اعظم عمران خان نے بھی انہیں کہہ دیا ہے کہ ہم آپ کے ساتھ دہشت گردی کی جنگ میں اتحادی نہیں بن سکتے، البتہ امن کے قیام کی جنگ میں ہم ضرور آپ کے اتحادی ہیں۔ لیکن امریکی پاکستان پر دبائو بڑھا رہے ہیں کہ پاکستان کو روسی کیمپ سے نکالا جائے۔ اسی لیے پاکستان میں آنے والی سیاسی تبدیلی کو دیکھتے ہوئے 22 اگست کے بعد سے ہی امریکہ نے پاکستان پر دبائو بڑھانا شروع کیا۔ دھونس دھاندلی کا طریقہ صرف ٹرمپ نے ہی استعمال نہیں کیا ہے بلکہ 1953ء سے ہی جب سے پاکستان اور امریکہ کے درمیان فوجی معاہدہ ہوا تھا، امریکہ کا ہر صدر اختیار کرتا رہا ہے۔

Comments (0)
Add Comment