ڈچ مصنوعات کی بائیکاٹ مہم بڑی جماعتوں کی اولین ترجیح نہیں

نجم الحسن عارف
ہالینڈ کی پارلیمنٹ کے رکن ملعون گیرٹ ولڈرز کی جانب سے گستاخانہ خاکوں کے مقابلے کے اعلان کے باوجود پاکستان کی بڑی سیاسی و مذہبی جماعتوں کا اب تک بھرپور احتجاج سامنے نہیں آ سکا۔ اب تک کسی بھی بڑی جماعت نے باضابطہ طور پر ہالینڈ کی مصنوعات کے بائیکاٹ کا اعلان یا مطالبہ نہیں کیا ہے۔ صرف تحریک لبیک نے ڈچ آئل کمپنی ’’شیل‘‘ کی مصنوعات کے بائیکاٹ کی مہم شروع کر رکھی ہے۔ جبکہ مسلم لیگ نواز کی قیادت نے اپنی میزبانی میں گزشتہ روز بلائے گئے اپوزیشن کے اجلاس میں اس موضوع پر بات کرنے سے انکار کر دیا۔ متحدہ مجلس عمل کی قیادت نے بھی اس سلسلے میں مسلم لیگ (ن) سمیت دیگر اپوزیشن جماعتوں کو اس معاملے کی جانب متوجہ کرنے کو فی الحال ضروری خیال نہ کیا۔ دوسری جانب پی ٹی آئی کی قیادت کو صدر کے انتخاب کیلئے جوڑ توڑ کرنے سے فرصت نہیں۔
مری میں ہفتے کے روز ہونے والے اپوزیشن جماعتوں کے اجلاس کے دوران جماعت اسلامی پاکستان کے ترجمان امیر العظیم نے ’’امت‘‘ سے بات کرتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ اپوزیشن جماعتوں کے اجلاس میں اس موضوع کو زیر بحث لایا جائے گا اور حکومت سے یہ باضابطہ طور پر مطالبہ کیا جائے گا کہ ہالینڈ کی مصنوعات کا بائیکاٹ کرنے کا اعلان کیا جائے اور ہالینڈ سے اپنا سفیر واپس بلایا جائے۔ دوسری جانب ایم ایم اے اور جمعیت علمائے اسلام (ف) کے مرکزی رہنما مولانا محمد امجد خان نے اس پس منظر میں ’’امت‘‘ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ایم ایم اے نے پہلے بھی یوم احتجاج کا اعلان کیا تھا اور اخبارات میں مذمتی بیانات بھی شائع کرائے ہیں، تاہم ابھی ہالینڈ کی مصنوعات کے بائیکاٹ کی اپیل نہیں کی گئی ہے۔ اس سلسلے میں آئندہ دنوں متحدہ مجلس عمل کی سطح پر غور کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ دو ہفتے بعد 9 ستمبر کو متحدہ مجلس عمل کی ساری قیادت لاہور میں جمع ہوگی اور اس سلسلے میں ایک جلسہ کیا جائے گا۔ جبکہ مولانا امجد خان نے 9 ستمبر کو ناموس شان رسالت کے تحفظ کیلئے لاہور میں دی گئی کال میں جلسے یا ریلی کے امکانی شرکا کے حوالے سے ممکنہ تعداد کا دعویٰ کرنے سے گریز کیا۔ ان کا صاف کہنا تھا کہ قبل از وقت ایسی تعداد کے اعلان سے وہ ایسے کسی تنازعہ میں پڑنا نہیں چاہتے۔ کیونکہ بعد ازاں میڈیا والے ایسی باتوں کو پکڑ کر علما کو بدنام کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ واضح رہے کہ مولانا امجد خان کی گفتگو میں ایسا کوئی اشارہ نہیں تھا کہ 9 ستمبر کی لاہور میں ریلی کی تیاری کب شروع کی جائے گی اور کس پیمانے پر شروع کی جائے گی؟ ادھر جماعت اسلامی پاکستان کے ترجمان امیر العظیم کی طرف سے کیا گیا یہ دعویٰ بھی شام تک فارغ ہوگیا کہ مری میں اپوزیشن جماعتوں کی سطح سے ناموس شان رسالت کے تحفظ کیلئے مشترکہ لائحہ عمل کے طور پر مطالبات سامنے لائے جائیں گے۔
اس سلسلے میں ’’امت‘‘ کو مسلم لیگ نواز کے مری میں موجود ذرائع نے بتایا کہ اس انتہائی حساس موضوع کو اپوزیشن کے مشترکہ اجلاس میں اس لئے زیر بحث لانے کی کوشش نہیں کی گئی کہ اس سے اجلاس کی سمت ہی تبدیل ہو جائے گی۔ اس لئے مسلم لیگ نواز کی قیادت نے ایسی تجویز پارٹی کے اندر سے سامنے آنے کے باوجود اس موضوع کو اپوزیشن جماعتوں کیلئے مشترکہ تشویش کے موضوع کے طور پر پیش کیا اور نہ اس سلسلے میں دوسری جماعتوں کے ساتھ مل کر حکومت پاکستان سے کوئی مطالبہ کرنے کو فوری طور پر مناسب اور ضروری قرار دیا۔ ان ذرائع کے مطابق نواز لیگ کی قیادت سمجھتی ہے کہ قومی اسمبلی اس بارے میں پہلے ہی ایک قرارداد منظور کر چکی ہے۔ اسی طرح پنجاب اسمبلی میں بھی ایک متفقہ قرارداد منظور کی جا چکی ہے۔ اس وجہ سے مزید کوئی مطالبہ اس طرح کے پلیٹ فارم سے جو مشترکہ صدارتی امیدوار سامنے لانے کیلئے ترتیب دیا گیا ہے، پیش کرنا درست اور مفید نہیں ہوگا۔
یاد رہے کہ ہالینڈ اور پاکستان کے درمیان 2016ء اور 2017ء میں مجموعی طور پر 1.21 ارب ڈالر کی تجارت ہوئی۔ جبکہ جولائی 2017ء سے اپریل 2018ء کے درمیان دو طرفہ تجارت کا حجم بڑھوتری کی طرف مائل ہوتے ہوئے 1.54 ارب ڈالر کو چھو گیا۔ اس دوران سابقہ حکومت نے قومی سطح پر ہی نہیں، حکومت پنجاب کی سطح سے بھی دو طرفہ تجارت کے فروغ میں دلچسپی ظاہر کی جس سے ہالینڈ سے آپریٹ ہونے والی کمپنیاں شیل، فلپس اور نیڈو ملک وغیرہ زیادہ فعال ہیں۔ ذرائع کا دعویٰ ہے کہ شیل آئل کمپنی میں ہالینڈ کا سرمایہ ہے۔
تحریک لبیک کے ترجمان پیر اعجاز اشرفی کا ’’امت‘‘ سے بات کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ’’ہمارے کارکن شیل پیٹرولیم، فلپس، یونی لیور، کلوز اپ، ڈوو سوپ وغیرہ، کنور، لائف بوائے، لپٹن، لکس، والز آئس کریم، پونڈز، سن سلک، سپریم، کمفرٹ، کلیئر، ڈامیکس، فیئر اینڈ لولی، فروٹیئر، رن، سن لائٹ وغیرہ کا بطور خاص بائیکاٹ کررہے ہیں۔‘‘ انہوں نے کہا کہ ’’گزشتہ کئی روز سے ہماری جماعت اس بارے میں آگاہی مہم شروع کئے ہوئے ہے اور اب تک مختلف شہروں کے مختلف چوراہوں پر تحریک لبیک کے کارکن احتجاج بھی کر چکے ہیں۔‘‘
واضح رہے کہ ہالینڈ کی حیثیت یورپ میں ایشیائی ملک تھائی لینڈ کی طرح ہے کہ اس میں اخلاقی اقدار کی پامالی سے لے کر ممنوعہ نشوں تک کی آزادی حاصل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس مادر پدر آزاد ملک میں توہین آمیز جسارت کو بھی نام نہاد آزادی اظہار کا کور حاصل ہے۔ اس سلسلے میں مسلم لیگ نواز کے مرکزی رہنما اور خارجہ امور کے ماہر محمد مہدی نے ’’امت‘‘ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’’میرے خیال میں ہالینڈ کی مصنوعات کے حوالے سے اکیلا پاکستان بہت اہم مارکیٹ نہیں ہے۔ اس کی مصنوعات کے بائیکاٹ سے ہالینڈ کو اتنا نقصان نہیں ہو گا جتنا کہ او آئی سی کی طرف سے اور پورے عالم اسلام کی جانب سے مسلمان عالم کیلئے اس انتہائی اہمیت کے حامل اور حساس معاملے پر مشترکہ لائحہ عمل سامنے لانے سے ہو سکتا ہے۔‘‘ انہوں نے کہا کہ ’’اگر ہالینڈ اور اس طرح کے کسی بھی دوسرے ملک کو ناموس شان رسالت پر حملوں سے باز رکھنا ہے تو ضروری ہے کہ پورا عالم اسلام اس معاملے کی حساسیت کو مشترکہ طور پر محسوس کرے اور اس کے بعد اجتماعی طور پر ہالینڈ کو تجارتی بائیکاٹ کا انتباہ کیا جائے، بصورت دیگر بہتر نتائج کی امید کم ہے۔‘‘ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ’’دنیا میں ایسی کئی تنظیمیں کام کر رہی ہیں جو اپنے مخصوص بین الاقوامی ایجنڈے کیلئے سرگرم ہیں اور وہ اپنے مذموم مقاصد کیلئے ایسی اوچھی حرکتیں کرنے سے بھی باز نہیں رہتی ہیں۔ ایسا منفی ایجنڈا رکھنے والی تنظیموں اور گروپوں کے خلاف قومی سطح پر اور ہر قسم کی تقسیم و تعصب سے بالا تر ہو کر بھرپور مگر پرامن احتجاج کی ضرورت ہے۔ ایک اور سوال کے جواب میں محمد مہدی نے کہا ’’ اگر ہم چاہتے ہیں کہ پاکستان ایک ریاست کے طور پر کچھ موثر اقدامات کرے، تو اس کیلئے ضروری ہے کہ پاکستان اپنے دفتر خارجہ کے ذریعے ہالینڈ کی پارلیمنٹ اور وہاں کی مختلف سیاسی جماعتوں سمیت اس رکن پارلیمنٹ کو براہ راست ’’انگیج‘‘ کرنے کی کوشش کرے۔ اس مقصد کیلئے ہالینڈ میں پاکستان کے سفارت خانے کو بھی بروئے کار لایا جانا چاہئے اور پاکستان کی مختلف الخیال سیاسی و مذہبی جماعتوں، انسانی حقوق سے متعلق تنظیموں اور قانون دانوں سمیت مختلف طبقات کے نمائندہ ارکان پر مشتمل وفود کو ہالینڈ کے علاوہ یورپی یونین سے مذاکرات کیلئے بھیجنا چاہئے۔ وہ مکمل تیاری کے ساتھ جائیں اور بتائیں کہ متنازعہ خاکوں کی وجہ سے مسلمانوں کے ہی نہیں، غیر مسلموں کے بھی جذبات مجروح ہوتے ہیں کہ یہ ایک محض مذہبی معاملہ نہیں، انسانی مسئلہ بھی ہے۔ ان وفود کو ویٹی کن سٹی کے علاوہ پروٹسٹنٹ مسیحیوں کی قیادت سے بھی رابطہ کرنا چاہئے اور اس بارے میں دنیا بھر کے مسلمانوں کے جذبات سے آگاہ کرنا چاہئے۔ اگر اس سمت میں فیصلے کر کے مشترکہ طور پر آگے بڑھنے کی کوشش کی جائے گی تو اسی صورت میں ایسے متنازعہ مسائل سے دنیا کو نجات کی امید پیدا ہوگی۔‘‘

Comments (0)
Add Comment