حبیبہ بھی نواب مرزا کی ہم خیال نکلی

قسط نمبر: 209
اردو ادب میں اچھے نادلوں کی تعداد انگلیوں پر گنی جاسکتی ہے۔ خاص طور پر ایسے ناول بہت کمیاب ہیں، جو کسی ایک یا زیادہ حقیقی واقعات کو بنیاد بنا کر لکھے گئے ہوں۔ انگریزی ادب میں FACT اور Fiction کو ملا کر FACTION کی نئی طرز ایجاد کی گئی۔ جس میں حقیقت اور فسانہ اس طرح گھلے ملے ہوتے ہیں، جیسے پانی سے بھرے گلاس میں برف کی ڈلی۔ تاہم اردو ادب میں اب ایک ایسا ناول ضرور موجود ہے، جو ایسے معیارات پر پورا اترتا ہے اور دنیا بھر کے قارئین کے لئے پیش کیا جا سکتا ہے۔ ’’کئی چاند تھے سر آسمان‘‘ شمس الرحمان فاروقی کے بے مثال قلم کا شاہکار ہے۔ ایک سچی کہانی۔ جس کے گرد فسانے کا تانا بانا بُنا گیا ہے۔ یہ اس زوال یافتہ معاشرے کی کہانی ہے جب بہادر شاہ ظفر زندہ تھے۔ اور تیموری خاندان کی بادشاہت آخری سانس لے رہی تھی۔ اس دور کی دلی اور گردو نواح کے واقعات۔ سازشیں۔ مجلسیں۔ زبان و ادب۔ عورتوں کی بولیاں ٹھولیاں اور طرز معاشرت سب آنکھوں کے سامنے پھر جاتا ہے۔ قارئین کے ادبی ذوق کی آبیاری کے لئے ’’امت‘‘ اس ناول کے اہم حصے پیش کر رہا ہے۔ یہ ناول ہندوستان اور پاکستان میں بیک وقت شائع ہوا تھا۔ مصنف شمس الرحمان فاروقی ہندوستان میں رہتے ہیں۔ وہ ایک بڑے نقاد، شاعر اور بے مثال ناول نگار کی شہرت رکھتے ہیں۔ (ادارہ)
فرط جذبات سے نواب مرزا کا گلا رکنے لگا۔ ادھر وزیر سر جھکائے، چہرہ آنسوؤں سے تر، دل میں جگہ ڈھونڈ رہی تھی کہ کہاں جاکر چھپ جاؤں، اور حبیبہ دیوار کا سہارا لئے بت بنی کھڑی تھی۔ ماں سے زیادہ اسے نواب مرزا کی الجھن اور مشکل کا احساس تھا۔ لیکن اب تک وہ کچھ کہہ نہ سکی تھی۔ آج اس نے ہمت کی۔
’’خانم صاحب،‘‘ وہ ڈوپٹے سے اپنی آنکھیں پونچھتے ہوئے بہت دھیمی آواز میں بول، ’’ایمان کی پوچھیں تو حق بات وہی ہے جو بچے میاں صاحب کہتے ہی۔ دنیا بہت بڑی ہے، ہماری جانیں بہت حقیر ہیں۔ دنیا کے سامنے جائے بغیر جاے پناہ بھی نہیں مل سکتی۔ بچے میاں اللہ رکھے گھر کے مرد ہیں۔ ان کو اگر گھر چلانے کی فکر ہے… تو ٹھیک ہی ہے۔‘‘
’’تو میں کب کہہ رہی ہوں کہ وہ میرے کلیجے سے لگ بیٹھے رہیں؟‘‘ وزیر نے تھکی ہوئی سی آواز میں کہا۔ ’’کیا میں یہ باتیں سمجھتی نہیں ہوں؟ لیکن میرے گھر کا جو بھی مرد باہر گیا پھر واپس نہ آیا… میں کس دل سے اپنے جگر کے ٹکڑے کو پہلو سے جدا کردوں؟‘‘
’’گستاخی کی معافی ہو۔‘‘ حبیبہ نے رکتے ہوئے کہا۔ ’’سو تو ٹھیک ہے خانم صاحب۔ لیکن دنیا پھر بھی دنیا ہے۔ آض ہمارے نواب صاحب…‘‘
’’ان کا نام مت لو حبیبہ۔ میرے دل پر کٹار سی چل جاتی ہے۔‘‘ وزیر نے کہا۔ ’’سبحان اللہ ان کو کروٹ کروٹ جنت نصیب انہیں کی فیاضیاں تھیں کہ ہمارے سر پر چھت ہے اور چولھے میں دو وقت آگ جل جاتی ہے۔‘‘
وہ تھوڑی دیر خاموش رہی، پرھ ٹھنڈی سانس بھر کر کہنے لگی: ’’… سنا فرنگیوں نے ان جیسے کئی رئیسوں کو یوں ہی بہانے سے بے دخل کر ڈالا یا ان کی جانیں لے لیں۔ یہ تیرہ صدی ہے۔… سچ بات تو وہی ہے جو تم کہتی ہو۔ بزرگوں نے کہا تو ہے کہ دنیا میں رہئے جیسے صابون میں تار، لیکن الجھنا آسان ہے اور سلجھنا مشکل۔ تب تک جنجال بھی ہے۔‘‘
نواب مرزا پالتی مار ماں کے قدموں میں بیٹھ گیا۔ ’’اچھا اماں جان اس وقت بات کو یہیں ختم کر دیں کہ مجھے بھی دنیا کا سامنا کرنے کا حق ہے۔ اور سخنوری ایسا پیشہ نہیں جس میں عزت نہ ہو اور یہ میرے دل کی مرضی کے موافق بھی ہے… چلئے اب غصہ اور رنج دونوں بھلا دیجئے، ہمیں بھوک لگی ہے۔‘‘
وزیر نے سر اٹھا کر دیکھا تو دھوپ آنگن سے جاچکی تھی۔ ’’ہائے میں اپنی فیل ہائیوں میں ایسی لگی کہ عصر کا وقت ہونے لگا اور نواب مرزا کو کھانا بھی نہ ملا۔ حبیبہ روٹیاں جلد از جلد دوسری منگایئے۔ وہ تو ٹھنڈی ہو کر مٹی ہوگئی ہوں گی۔‘‘
’’اب نانبائی کے جھمیلے میں کیا پڑیں خانم صاحب، میں ہی جھپاک سے چار روٹیاں ڈال دیتی ہوں۔ گھڑی بھر سے کم ہی میں ہمارے بچے میاں اور خانم صاحب کھانا کھالیں گی۔‘‘
یہ کہہ کر حبیبہ تو باورچی خانے کی طرف گئی اور وزیر نے منہ ہاتھ دھونے کے لئے آبدار خانے کا رخ کیا۔ نواب مرزا کے دل میں شرمندگی تھی اور شک تھا کہ منہ ہاتھ دھونا فقط بہانہ ہے، اماں جان در اصل اپنے آنسو پونچھنے اور چہرے پر سے آنسوؤں کے داغ مٹانے گئی ہیں۔ اس کے دل میں بڑی زور سے ہوک اٹھی کہ کاش وہ کسی بھی طرح، خواہ اپنے کو بیچ کر ہی اپنی ماں کے لئے اتنی دولت لادیتا کہ وہ چار کو اعلٰی سے اعلیٰ کھانے کھلا کر ہی خود کھاتی اور اسے تا حیات میرے لئے کسی قسم کو خوف نہ لاحق ہوتا۔ اچانک اس کی آنکھوں کے سامنے قدم شریف کی درگاہ اور اپنے باپ کے مزار کی شبیہ روشن ہوگئی۔ کیا اس میں میرے لئے کوئی اشارہ ہے؟ اس نے خود سے کہا۔ نہ سہی، لیکن ان کے مزار مقدس کی زیارت کئے مجھے کئی دن ہوگئے ہیں۔ کل ضرور جاؤں گا۔
اگلے دن تو نہیں، لیکن تیسرے چوتھے دن نواب مرزا نے قدم شریف جانے کا اہتمام کیا۔ ماں سے گفتگو کا ذہنی دباؤ بیٹے پر تھا تو بیٹے سے گفتگو کا ذہنی دباؤ ماں پر بھی تھا۔ وزیر نے تو جوں توں کرکے خود کو سنبھال لیا اور بیٹے کی معمولہ خاطر داریوں میں لگی رہی۔ لیکن نواب مرزا کو سردی لگ کر تپ چڑھ آئی۔ کچھ علاج معالجہ اور کچھ ماں کی تیمار داری اور حبیبہ کی خدمت گزاریوں کے باعث تیسرے دن اس کا جی اچھا ہوا اور چوتھے دن اس نے قدم شریف کی ٹھانی، لیکن ماں سے نہ بتایا۔ جیسا کہ مذکور ہوا، قدم شریف پر وزیر کا جانا اب بہت کم ہوگیا تھا، نواب مرزا نے دل میں خیال کیا کہ اس وقت اماں جان پر نہ ظاہر کرنا ہی ٹھیک ہے۔ شاید وہ چلنا چاہیں لیکن تنگدستی کے عالم میں جانے سے انہیں رنج ہی ہوگا۔
قدم شریف پہنچ کر نواب مرزا نے درگاہ کے اندر ایک گھڑی آنکھیں بند کرکے مراقبہ کیا، پھر باپ ک مزار پر فاتحہ پڑھی۔ بقیہ تمام صاحبان مزارات کے حق میں دعائے خیر کرکے وہ نکل ہی رہا تھا کہ ہلکا سا شور بلند ہوا، کچھ ’’طرقولا!‘‘، ’’ ہٹ کے چلو صاحبان! بڑھاؤ قدم کو جا بجا سے! بڑھے جاؤ صاحب!‘‘، وغیرہ سی آوازیں سنائی دیں۔ نواب مرزا کی نگاہ صدر دروازے پر گئی تو لال بانات کی قبائیں پہنے ہوئے نوکروں، سبز کھڑکی دار پگڑیاں باندھے ہوئے چوبداروں اور سفید پوش برچھیتوں سے گھرا ہوا ایک مرصع ہوادار نظر آیا جس میں کوئی بے حد وجیہ اور خوشرو شخص سوار تھا۔ نواب مرزا نے بادشاہ سلامت کو کبھی دیکھا نہ تھا، لیکن ان کی تاجپوشی والی شبیہ کی نقلیں جگہ جگہ ملتی تھیں اور نواب مرزا اس کے توسط سے بادشاہ ظل الہ کا صورت آشنا کہا جا سکتا تھا۔ ہوادار کے مسافر کو دیکھ کر اسے دھوکا ہوا کہ یہ بادشاہ سلامت تو نہیں، لیکن فوراً ہی اس کا وہم دور ہوگیا۔ ظل الہیٰ ہوتے تو ہاتھی پر سوار ہوتے، اور ملازموں کے علاوہ امرا اور شاہزادوں کا ہجوم بھی ہوتا۔ لیکن زیارت کو آنے والا امیر اگر بادشاہ نہیں تو کوئی شاہزادہ ضرور تھا۔ نواب مرزا نے نگاہ نیچی کئے کئے حتی الامکان غور سے دیکھا۔ کوئی تیس پینتیس برس کا سن، کشیدہ قامت، دبلا لیکن طاقتور ڈیل، پیضاوی چہرہ، کلے کی ہڈیاں ابھری ہوئی، ناک پتلی اور سوتواں، گردن اونچی اور سڈول، بڑی بڑی سیاہ آنکھیں فراست اور فطانت کے نور سے روشن، ہلکا سانولا رنگ، سیاہ داڑھی پورے چہرے پر، لیکن بہت گھنی نہیں، مونچھیں بہت نفیس بنی ہوئی، کچھ گنجان لیکن ناک کے نیچے کتری ہوئی اور دہانے کے دونوں طرف ریشمی مورچھل کی طرح پڑی ہوئی۔ سبز کمخواب کا دو با کا پاجامہ ، اس پر ہلکی سبز ڈھاکے کی ململ کا کرتہ، کرتے کے اوپر جامہ دار کی چارقب، سر پر بھاری کار چوبی سے پٹی ہوئی چوگوشیہ سیاہ مخمل ٹوپی، پتلی کمر میں سبز بنارستی پوٹ کا ڈوپٹہ جس میں ایک طرف جراؤ پیش قبض اور ایک طرف جراؤ پیش قبض اور ایک طرف چاندی کا مرصع طمنچہ تعبیہ کیا ہوا تھا۔ گلے میں سات لڑوں کی مالائے مروارید، ٹوپی میں کوئی زیور نہیں، لیکن دونوں ہاتھوں کی دو دو انگلیوں میں بیش قیمت الماس، یاقوت اور زمرد کی انگوٹھیاں، ہاتھ میں کوئی کتاب، یا شاید دعاؤں کا مجموعہ، چاروں طرف سے لوگ سلام کر رہے تھے اور وہ مسکرا مسکرا کر سینے پر ہاتھ رکھ لیتے تھے، منہ سے بولتے کچھ نہ تھے۔ کسی نے کہا، ’’ مرزا فتح الملک بہادر ہیں، ماشاء اللہ کس قدر جامہ زیب اور شاہانہ ہستی ہیں، عین مین ہمارے بادشاہ سلامت کی صورت پائی ہے۔‘‘ (جاری ہے)

Comments (0)
Add Comment