اسپورٹس فیڈریشنزکے جعلی ڈگری ملازمین کی شامت آگئی

امت رپورٹ
نئی حکومت آنے کے بعد اسپورٹس فیڈریشنز میں جعلی ڈگری ہولڈرز ملازمین کی شامت آگئی ہے۔ وزیر اعظم عمران خان کی ہدایت پر پی سی بی، پی ایچ ایف اور پی ایس بی سمیت دیگر کھیلوں کے اداروں سے منسلک ملازمین کی اسکرونٹی کی جائے گی۔ جبکہ سرینڈر کرنے والے ورکرز کے ساتھ رعایت کا فیصلہ بھی کیا گیا ہے۔ نگرانی کا ٹاسک وفاقی وزیر فہمیدہ مرزا کے سپرد کیا گیا ہے۔ دوسری جانب مشکوک کوائف کے حامل پی سی بی ملازمین کی فہرست تیار کرلی گئی ہے۔ ادھر ایشین گیمز میں پاکستانی چیف ڈی میشن کے گرد گھیرا تنگ کردیا گیا ہے۔
با خبر ذرائع کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم عمران خان کی ہدایت کے بعد اسپورٹس فیڈریشنز میں غیر قانونی تقرریوں کی نشاندہی کیلئے خصوصی ٹیم تشکیل دینے کا فیصلہ کرلیا گیا ہے۔ جس کی سربراہ فہمیدہ مرزا کو مقرر کیا گیا ہے۔ ذرائع کے بقول تمام اسپورٹس فیڈریشنز کے ملازمین کی مرحلہ وار جانچ پڑتال کی جائیگی۔ اس عمل کا آغاز سب سے پہلے پاکستان کرکٹ بورڈ سے کیا جارہا ہے۔ معلوم ہوا ہے کہ جعلی ڈگری کے حامل دو درجن کے قریب ملازمین پی سی بی سے منسلک ہیں، جن کی تقرریاں نجم سیٹھی اور شہریار خان کے دور میں کی گئی تھیں۔ اس کارروائی کا مقصد 100 روزہ پروگرام کے تحت مستحق نوجوانوں کو اسپورٹس اداروں میں زیادہ سے زیادہ ملازمتیں دلانا ہے۔ اس پروگرام کے تحت پاکستان کرکٹ بورڈ کے افسران کی تعلیمی قابلیت کا کیس بھی ترجیحی بنیادوں پر سامنے آسکتا ہے کیونکہ اس کیس میں قواعد کو یکسر نظر انداز کرکے من پسند افسران کو فائدہ پہنچایا گیا تھا۔ ایسے میں پاکستان کرکٹ بورڈ میں کئی افسران میں کھلبلی مچی ہوئی اور کچھ اپنی ملازمتیں بچانے خاموشی سے کوششیں کررہے ہیں۔ تاہم مصدقہ ذرائع کا کہنا ہے کہ نئے انتظامی سیٹ اپ میں بورڈ کے کچھ اہم ترین افسران کی تعلیمی اسناد کا معاملہ سامنے آنے کا امکان ہے۔ کیونکہ ابھی تک کچھ افسران کی ڈگریوں پر بورڈ کی ایچ آر کمیٹی کو تحفظات ہیں۔ اس سلسلے میں سروس رول کو نظر انداز کیا گیا تھا۔ اعلیٰ افسران کے منظور نظر دونوں افسران کو ڈگری کے کیس میں شک کا فائدہ دیا گیا اور دونوں کو ترقی بھی مل گئی۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ بورڈ میں ایک جنرل منیجر کی ڈگری کیلئے بورڈ کو با ر بار یاد دہانی کرانا پڑی اور گزشتہ سال انہوں نے یہ کہہ کر ڈگری جمع کرادی کہ انہوں نے اسی سال ماسٹرز کیا ہے۔ حالانکہ چند برس قبل ان کا کیس بار بار میڈیا میں آتا رہا اور وہ یہی کہتے رہے کہ میری ڈگر ی تصدیق کے مرحلے میں ہے اور جلد مل جائے گی۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ بورڈ کے ایک اور با اثر افسر کی ڈگری تو جمع ہوگئی لیکن ڈگری ان کے عہدے کے مساوی نہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ ڈائریکٹر کے عہدے کیلئے بی اے کی ڈگری جمع کرائی گئی ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ چند برس میں اچانک بلندیوں کی جانب سفر کرنے والے دونوں افسران کو اعلی شخصیات کی قربت کی وجہ سے اہم عہدوں پر لایا گیا، لیکن دونوں کی ڈگریوں اور قابلیت پر بہت سارے سوالات اٹھائے جارہے ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان کے قریب سمجھے جانے والے اہم افسرذاکر خان اس سلسلے میں پنڈورا باکس کھولنے کیلئے تیار ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے جیسے ہی بورڈ میں تبدیلی ہوئی دونوں افسران کو گھر رخصت ہونا پڑے گا بلکہ انہیں احتساب کا بھی سامنا کرنا پڑے گا۔ اس سلسلے میں کچھ کام خاموشی سے آگے بڑھ رہے ہیں۔ اس کریک ڈاؤن کو مکمل کرنے کے بعد پاکستان اسپورٹس بورڈ میں تعینات جعلی ڈگری ہولڈرز ملازمین کو گریبان پر ہاتھ ڈالا جائے گا۔ حکومت کی تبدیلی کے بعد وزارت بین الصوبائی رابطہ کے ذیلی ادارے پاکستان اسپورٹس بورڈ میں بڑی تبدیلوں کے امکانات ہیں۔ وفاقی حکومت کے زیرکنٹرول پاکستان اسپورٹس بورڈ کے امور کو موثر انداز میں چلانے کیلئے 1962 میں اسپورٹس ڈیولپمنٹ اینڈکنٹرول ایکٹ کے تحت پاکستان اسپورٹس بورڈ کا قیام عمل میں لایا گیا اور بعدازاں پی ایس بی کو وزارت تعلیم سے وزارت بین الصوبائی رابطہ کے ساتھ منسلک کردیا گیا۔ پاکستان اسپورٹس بورڈ کے آئین کے تحت صدر مملکت ممنون حسین پی ایس بی کے صدر، وفاقی وزیر برائے بین الصوبائی رابطہ امور ڈاکٹر فہمیدہ مرزا نائب صدر ہیں۔ دوسری جانب وزارت بین الصوبائی رابطہ اور پاکستان اسپورٹس بورڈ کی مبینہ ملی بھگت سے جعلی ڈگری کیس میں جیل جانے والے عاقل شاہ انڈونیشیا میں جاری ایشین گیمز کیلئے قومی دستے کے چف ڈی مشن مقرر کئے گئے ہیں۔ ان کی واپسی پر انکے خلاف کارروائی متوقع ہے۔ اس حوالے سے بریگیڈئر (ر) عارف صدیقی کا کہنا ہے کہ عمران خان معاملے کا فوری نوٹس لیں۔ جیل جانے والا کیسے پاکستانی دستے کی قیادت کر سکتا ہے۔واضح رہے کہ سابق صوبائی وزیر خیبر پختون سید عاقل خان 2008ء بیجنگ اولمپک گیمز اور 2012ء میں لندن میں بھی ہونے والے اولمپک مقابلوں میں بھی پاکستانی دستے کے چف ڈی مشن رہ چکے ہیں، جہاں پاکستان کی کارکردگی انتہائی افسوس ناک رہی۔

Comments (0)
Add Comment