اپوزیشن میں پھوٹ کیلئے اعتزاز کوصدارتی امید وارنامزد کیا گیا

امت رپورٹ
کل جماعتی کانفرنس کے اجلاس میں اپوزیشن پارٹیاں مشترکہ صدارتی امیدوار لانے پرمتفق نہ ہو سکیں۔ تاہم احسن اقبال کا کہنا ہے کہ اپوزیشن کے مشترکہ امیدوار کے نام کا اعلان آج (اتوار) کو کر دیا جائے گا۔ اس سارے معاملے کے پس پردہ حقائق سے آگاہ ذرائع کے مطابق پیپلز پارٹی کو بخوبی علم تھا کہ نون لیگ کبھی بھی اعتزاز احسن کو صدارتی امیدوار کے طور پر قبول نہیں کرے گی اور یہ کہ جان بوجھ کر اس منصب کے لئے اعتزاز احسن کا نام دیا گیا۔ تاکہ اپوزیشن میں پھوٹ ڈال کر کسی کو خوش کیا جا سکے۔ پی پی پی کے اعلیٰ حلقوں تک رسائی رکھنے والے ایک اور ذریعے کے بقول اعتزاز احسن، پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری کی گڈ بک میں نہیں تاہم اعتزاز احسن کو پارٹی کے پنجاب چیپٹر کی سپورٹ حاصل ہے جبکہ پنجاب چیپٹر کے اوپر پارٹی چیئرمین بلاول بھٹو کا ہاتھ ہے۔ ذریعے کے مطابق بطور صدارتی امیدوار اعتزاز احسن کی نامزدگی بھی کسی کو خوش کرنے کے اسی فارمولے کے تحت کی گئی ہے، جو فارمولا وزارت عظمیٰ کے امیدوار شہباز شریف اور وزارت اعلیٰ کے امیدوار حمزہ شہباز کو ووٹ نہ دے کر پیپلز پارٹی نے اپنایا تھا۔ تاہم فی الحال پیپلز پارٹی کو اس فارمولے کے فوائد حاصل نہیں ہو سکے ہیں۔ ذریعے کے بقول صدارتی الیکشن کے موقع پر بھی اگر یہی عمل دہرایا جاتا ہے تو پھر بھی پیپلز پارٹی کو ریلیف ملنے کا زیادہ امکان نہیں۔ ذریعے کے مطابق نون لیگ نے واضح طور پر پیپلز پارٹی کو کہا ہے کہ اگر وہ اعتزاز احسن کے بجائے رضا ربانی یا کسی اور پارٹی رہنما کو صدارتی امیدوار نامزد کر دے تو نہ صرف وہ اس امیدوار کو تسلیم کر لے گی بلکہ اپوزیشن کی دیگر پارٹیوں کو بھی اس پر قائل کرے گی تاکہ اپوزیشن کا مشترکہ امیدوار میدان میں اتارا جا سکے اور حکمراں جماعت کے نامزد صدارتی امیدوار ڈاکٹر عارف علوی کو آسانی سے جیتنے کا موقع نہ مل سکے۔ لیکن پیپلز پارٹی تاحال اپنے صدارتی امیدوار اعتزاز احسن کو دستبردار کرانے سے انکاری ہے۔ تاہم پیپلز پارٹی کے بعض سینئر رہنما پارٹی قیادت کو باور کرا رہے ہیں کہ اعتزاز احسن کا نام واپس لے کر اپوزیشن کو تقسیم ہونے سے بچایا جا سکتا ہے۔ اور پھر یہ کہ اس صورت میں بھی امیدوار پیپلز پارٹی کا ہی ہو گا۔ جبکہ دوسری صورت میں اپوزیشن کمزور ہو جائے گی۔ اور اس کے عوض جس متوقع ریلیف کی توقع کی جا رہی ہے وہ بھی ملتا دکھائی نہیں دے رہا۔ ذریعے کے مطابق اگر اینٹی اسٹیبلشمنٹ کی شہرت رکھنے والے پیپلز پارٹی کے یہ چند رہنما پارٹی قیادت کو قائل کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو اس صورت میں ہی اعتزاز احسن کا نام واپس لیا جا سکتا ہے۔ بصورت دیگر اپوزیشن ایک بار پھر اسی طرح تقسیم دکھائی دے گی جیسے وزیراعظم کے انتخاب کے موقع پر تھی۔ کیونکہ نون لیگ کی قیادت کسی بھی طور پر اعتزاز احسن کو صدارتی امیدوار قبول کرنے پر آمادہ نہیں۔ تاہم دلچسپ بات یہ ہے کہ جس طرح اس معاملے پر پیپلز پارٹی کے اندر مختلف آرا پائی جاتی ہے کچھ اسی سے ملتی جلتی صورت حال مسلم لیگ ’’ن‘‘ میں بھی ہے۔
مسلم لیگ ’’ن‘‘ کے ذرائع نے بتایا کہ پیپلز پارٹی کی طرف سے صدارتی امیدوار کے طور پر اعتزاز احسن کا نام دیئے جانے پر اگرچہ شہباز شریف، احسن اقبال اور ان کے ہم خیال چند دیگر پارٹی رہنما تھوڑی بہت لچک دکھانے پر آمادہ ہیں لیکن نواز شریف اور ان کی بیٹی مریم نواز نے یہ نام یکسر مسترد کر چکے ہیں۔ یہ معاملہ عید کے روز اڈیالہ جیل میں شہباز شریف اور نواز شریف کے درمیان ہونے والی ملاقات کے دوران بھی تفصیل کے ساتھ زیر بحث آیا۔ نواز شریف کی شہباز شریف کو واضح ہدایت تھی کہ اعتزاز احسن کا نام قبول نہ کیا جائے۔ لیگی ذرائع کے مطابق نواز شریف اور مریم نواز کو سب سے زیادہ غصہ اعتزاز احسن کے ان بیانات اور انٹرویوز پر ہے، جس میں انہوں نے کلثوم نواز کی بیماری کے حوالے سے سخت باتیں کی تھیں۔ اسی طرح وہ نواز شریف کی ہارٹ سرجری کی خبروں کا بھی تمسخر اڑاتے رہے۔ لیگی ذرائع نے بتایا کہ پرویز رشید اور مریم اورنگ زیب سمیت نواز شریف اور مریم نواز گروپ کے دیگر رہنمائوں کا موقف ہے کہ نون لیگ کے بدترین مخالف (اعتزاز احسن) کو صدر بنانے سے بہتر ہے کہ عارف علوی کو ہی یہ منصب مل جائے کیونکہ اعتزاز احسن کے صدر بن جانے کا مسلم لیگ ’’ن‘‘ کو کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔ ذرائع کے بقول اس ساری مخالفت کے باوجود شہباز شریف اور ان کے ہم خیال دیگر لیگی رہنما سمجھتے ہیں کہ اگر پیپلز پارٹی اعتزاز احسن کے نام سے دستبردار نہیں ہوتی تو اپوزیشن کو متحد رکھنے کے لئے لچک دکھانے میں مضائقہ نہیں۔ جبکہ اعتزاز احسن کو صدارتی الیکشن کی دوڑ سے باہر کرنے کے لئے مسلم لیگ ’’ن‘‘ کی جانب سے پیپلز پارٹی کو یہ پیشکش بھی کی گئی ہے کہ اس کے عوض جب چیئرمین سینیٹ کی تبدیلی کا مرحلہ آئے گا تو نون لیگ رضا ربانی یا پیپلز پارٹی کے کسی بھی نامزد امیدوار کو سینیٹ کی چیئرمین شپ دے سکتی ہے۔
ادھر مسلم لیگ ’’ن‘‘ کے ایک رہنما نے اعتراف کیا ہے کہ صدارتی الیکشن کے نمبر گیم میں تحریک انصاف کو برتری حاصل ہے۔ تاہم صدارتی الیکشن میں بھی آزاد امیدواروں کا رول اہم ہو گا۔ اپوزیشن اتحاد کو موہوم سی امید ہے کہ سینیٹ میں اکثریت رکھنے والی پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ’’ن‘‘ کو اگر سینیٹ، قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیوں میں موجود 23 آزاد ارکان کی حمایت مل جاتی ہے تو صدارتی الیکشن میں پانسہ پلٹا جا سکتا ہے تاہم موجودہ اعداد و شمار کے حساب سے حکومت اور اس کے اتحادیوں کو نمبر گیم میں اپوزیشن اتحاد پر برتری حاصل ہے اور یہ امکان بہت کم ہے کہ آزاد امیدوار برسراقتدار پارٹی کو نظر انداز کر کے اپوزیشن اتحاد کی طرف جائیں۔ الیکشن کمیشن کے سابق سیکریٹری کنور دلشاد کا بھی یہی کہنا ہے کہ پی ٹی آئی کے نامزد امیدوار عارف علوی صدر منتخب ہو جائیں گے۔
سینیٹ، قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلی کے ارکان پر مشتمل الیکٹورل کالج صدر کا انتخاب کرتا ہے۔ قومی اسمبلی اور سینیٹ کے ہر رکن کا ایک ووٹ ہوتا ہے۔ اسی طرح ملک کے سب سے چھوٹے صوبے بلوچستان کی اسمبلی کے ہر رکن کا بھی ایک ووٹ ہو گا۔ جبکہ دیگر تین صوبوں کی اسمبلیوں کے ارکان کی کل تعداد کو بلوچستان کے کل ارکان کی تعداد سے تقسیم کر کے فی ووٹ کا تناسب نکالا جائے گا۔ مثلاً پنجاب ، سندھ اور خیبر پختون اسمبلیوں کے کل ووٹوں کی تعداد کو بلوچستان اسمبلی کے کل 65 ارکان کے ووٹوں سے تقسیم کیا جائے گا، اس تقسیم کے نتیجے میں پنجاب اسمبلی کے قریباً 5 سے پونے چھ ارکان کا ایک ووٹ، سندھ اسمبلی کے دو سے ڈھائی ارکان کا ایک ووٹ اور خیبر پختون اسمبلی کے پونے دو ارکان کا ایک ووٹ بنتا ہے۔ سینیٹ میں اگرچہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ’’ن‘‘ کی اکثریت ہے، جبکہ سندھ اسمبلی میں پیپلز پارٹی کو تنہا برتری حاصل ہے تاہم قومی اسمبلی اور دیگر تین اسمبلیوں میں حکمران جماعت پی ٹی آئی اور اس کے اتحادی نمبر گیم میں آگے ہیں۔ تقسیم کے فارمولے پر عمل کے بعد حکمراں جماعت اور اس کے اتحادیوں کو اپنے صدارتی امیدوار کے لئے 346 ووٹ دستیاب ہیں جبکہ متحد رہنے کی صورت میں بھی اپوزیشن اتحاد کے پاس 320 سے زائد ووٹ نہیں۔
ماضی میں دو بار صدارتی الیکشن کرانے والے الیکشن کمیشن کے سابق سیکریٹری کنور دلشاد کا اس سارے معاملے پر کہنا ہے کہ جس طرح وزیراعظم کے انتخاب کے موقع پر پیپلز پارٹی کے ارکان نے اپوزیشن کے امیدوار شہباز شریف کو ووٹ دینے کے بجائے Abstain (غیر حاضر یا لاتعلق) رہنے کو ترجیح دی تھی، یہی صورت حال صدارتی الیکشن کے موقع پر بھی دیکھنے میں آ سکتی ہے، جب کوئی پارٹی ووٹ دینے کے بجائے ووٹنگ کے عمل سے لاتعلق رہتی ہے تو اس کا صاف مطلب مدمقابل پارٹی کو فائدہ پہنچانا ہوتا ہے۔ وزیراعظم کے انتخاب کے موقع پر پی پی نے ووٹنگ میں حصہ نہ لے کر براہ راست پی ٹی آئی کو فائدہ پہنچایا۔ Abstain کا مطلب یہی ہوتا ہے کہ دوسری پارٹی کو محفوظ راستہ دے دیا جائے۔ جب بے نظیر بھٹو حیات تھیں تو پیپلز پارٹی نے مشرف دور کے صدارتی الیکشن میں بھی ایوان سے واک آئوٹ کر کے مشرف کے صدر منتخب ہونے میں مدد کی تھی۔ اس الیکشن سے ایک روز پہلے این آر او ہو چکا تھا۔ لیکن اس بار صورت حال مختلف ہے۔ ٭

Comments (0)
Add Comment