امام اعظم ابو حنیفہؒ کی مناجات کو حضرت ابو الحسن علی بن احمد الفارسیؒ نقل کرتے ہیں۔ ذیل میں چند مناجات نقل کی جاتی ہیں، امام ابو حنیفہؒ اپنی مناجات میں یہ کہا کرتے تھے:
خدایا! اگر میں آپ کی رحمت کا، جس کا میں امیدوار ہوں، مستحق نہیں ہوں تو آپ تو اس لائق ہیں کہ گناہ گاروں پر اپنے فضل و کرم کی سخاوت کریں۔ الٰہی! آپ نے ہمیں دوسروں کے ساتھ احسان کرنے کا حکم دیا، جب کہ آپ کی ذات احسان کی زیادہ مستحق ہے، آپ نے ہمیں لوگوں کی حاجتیں پوری کرنے کا حکم دیا، حالاں کہ آپ کی ذات بہترین حاجت روا ہے، الٰہی آپ نے اس دنیا میں میرے گناہوں پر پردہ ڈالا ہے۔ میں آخرت میں اس پردہ پوشی کا زیادہ محتاج ہوں، الٰہی مجھے خالص اور سچی توبہ نصیب فرما اور اس کی حلاوت بھی چکھا دے اور میرے دل میں اس کی ٹھنڈک پہنچا دے، یہاں تک کہ میں دنیا میں اجنبی اور آپ کا محبوب ہو جائوں،یا الٰہی! جو اپنی حاجتوں کو لوگوں کے سامنے پیش کرتا ہے یا ان سے مانگتا ہے یا ان پر بھروسہ رکھتا ہے (تو کیا کرے) میں تو آپ ہی کے سامنے اپنی حاجتیں پیش کروں گا اور آپ ہی سے مانگوں گا، پس اے میرے رب! میری حاجتوں کو پورا فرما، آپ ہی حاجتوں کی آخری منزل ہیں اور مجھے نیک لوگوں کے ساتھ اپنی رحمت میں جگہ عطا فرما اور مجھے دوزخ سے نجات دے اور صبح شام دنیا کے کاموں میں مگن رہنے پر میری مغفرت فرما۔
قاضی ایاسؒ کی وفات
قاضی ایاسؒ کی وفات کا واقعہ عجیب ہے۔ ان کی عمر جب چہتر برس کے قریب ہوئی تو انہوں نے ایک رات خواب میں اپنے والد مرحوم اور خود کو دیکھا کہ دونوں اپنے اپنے گھوڑوں پر سوار ہیں اور ایک ساتھ چل رہے ہیں، دونوں میں کوئی بھی آگے پیچھے نہیں ہوتا۔ دونوں گھوڑے بالکل ساتھ ساتھ ہیں۔ دیکھ کر آنکھ کھل گئی۔
اس خواب کے چند روز بعد ایک رات وہ حسب معمول اپنے بستر پر لیٹے۔ گھر والوں سے کہا، جانتے ہو کہ یہ کون سی رات ہے؟ گھر والوں نے لا علمی کا اظہار کیا اور کہا ہمیں نہیں معلوم۔ فرمایا: اس تاریخ اور اس رات میرے والد مرحوم کی عمر چہتر سال پوری ہوئی تھی اور وہ اس کی صبح وفات پا گئے تھے۔ یہ کہہ کر سو گئے۔ جب صبح ہوئی تو گھر والے یہ دیکھ کر حیرت زدہ رہ گئے کہ وہ اپنے بستر پر وفات پاچکے ہیں۔ (از اکیس جلیل القدر تابعین۔ ص 254)
٭٭٭٭٭