خلاصہ ٔ تفسیر
کیا انسان کو اس کی ہر تمنا مل جاتی ہے (واقعہ ایسا نہیں ہے، کیونکہ ہر تمنا) سو خدا ہی کے اختیار میں ہے، آخرت (کی بھی) اور دنیا (کی بھی، پس وہ جس کو چاہیں، پورا فرما دیں اور نص قطعی میں یہ بتلا دیا گیا ہے کہ حق تعالیٰ ان کی اس تمنائے باطل کو پورا کرنا نہیں چاہیں گے، نہ دنیا میں ان کی دنیوی حاجات میں شفاعت کریں، نہ آخرت میں کہ وہاں عذاب سے نجات کی شفاعت کریں، اس لئے یقینا وہ پوری نہ ہوگی) اور (بے چارے بت تو کیا شفاعت کرتے کہ ان میں خود اہلیت ہی شفاعت کی نہیں، اس دربار میں تو جو لوگ اہل ہیں، ان کی بھی بلا اجازتِ حق کچھ نہیں چلتی، چنانچہ) بہت سے فرشتے آسمانوں میں موجود ہیں (شاید اس میں اشارہ ہو علو شان کی طرف، مگر باوجود اس علو شان کے) ان کی سفارش ذرا بھی کام نہیں آ سکتی (بلکہ خود شفاعت ہی نہیں پائی جا سکتی) مگر بعد اس کے کہ خدا تعالیٰ جس کے لئے چاہیں اجازت دیدیں اور (اس کے لئے شفاعت کرنے سے) راضی ہوں (یرضیٰ اس لئے بڑھایا تاکہ کبھی مخلوق کا اذن بلا رضا بھی کسی دباؤ یا مصلحت سے ہو جاتا ہے، حق تعالیٰ جل شانہ کے معاملے میں اس کا بھی دور کا کوئی احتمال نہیں کہ وہ کسی دباؤ سے مجبور ہو کر راضی ہو جاویں، آگے اس کا بیان ہے کہ فرشتوں کو حق تعالیٰ کی اولاد قرار دیدینا کفر ہے کہ) جو لوگ آخرت پر ایمان نہیں رکھتے (بلکہ اس کے انکار کی وجہ سے کافر ہیں) وہ فرشتوں کو (خدا کی) بیٹی کے نام سے نامزد کرتے ہیں (ان کی تعبیر بالکفر میں آخرت کی تخصیص سے شاید اس طرف اشارہ ہو کہ یہ سب ضلالتیں آخرت کی بے فکری سے پیدا ہوئی ہیں، ورنہ معتقد آخرت کو اپنی نجات کی ضرور فکر رہتی ہے اور یہاں انثیٰ بمعنے دختر کے ہیں اور جب ملائکہ کو خدا کے ساتھ شریک ٹھہرانے کے کفر ہونے کی تصریح فرما دی تو بتوں کے شریک ٹھہرانے کا کفر ہونا بدرجہ اولیٰ ثابت ہوگیا، اس لئے صرف اسی پر اکتفا کیا گیا، آگے اس کا بیان ہے کہ فرشتوں کو حق تعالیٰ کی لڑکیاں قرار دینے کا عقیدہ باطل ہے) حالانکہ ان کے پاس اس پر کوئی دلیل نہیں، صرف بے اصل خیالات پر چل رہے ہیں اور یقینا بے اصل خیالات امر حق (کے اثبات) میں ذرا بھی مفید نہیں ہوتے۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭