آپریشن کے انتہائی نگہداشت کے وارڈ میں ڈاکٹر ابراہیم جلال (جو ’’قصر عینی‘‘ کے میڈیکل کالج میں عمل جراحی کے استاذ تھے) کی سربراہی میں ڈاکٹروں کی ایک ٹیم اس کے استقبال کے لیے موجود تھی۔ اس کی حالت ناقابل بیان تھی۔ سلاخوں نے اس کے پیٹ کے بالائی نچلے حصوں کو چیر ڈالا تھا۔ بائیں پسلی کی ہڈی ٹوٹ گئی تھی اور دائیں میں بھی سنگین فریکچر تھا۔ جسم کے اوپر کے حصے میں خون کر گردش اور شدید اعصابی جھٹکے کی وجہ سے دل کی دھڑکن بھی ڈھیلی پڑ گئی تھی۔
بلاشبہ یہ کسی بھی انسان کی آزمائش کی ایک انتہائی نازک صورت تھی۔‘‘
زندگی اور موت کی اس باہمی کشمکش کی آگے کی داستان ڈاکٹر ابراہیم جلال یوں بیان کرتے ہیں:
’’اس نوجوان کی نازک حالت کی بحالی کے لیے ہم فوری طور پر جو کچھ کرسکتے تھے، ہم نے وہ کیا۔ چناں چہ ہم نے فوراً کچھ محلول تیار کیے، فوری ضرورت کے لیے خون کی بڑی مقدار مہیا کی اور کچھ ضروری انجکشن اور دوائیاں بھی استعمال کیں۔ اب ہمیں سب سے پہلے اس کے جسم سے تینوں سلاخوں کو نکالنا تھا۔ اس وقت ہم نے ایک ایسا انوکھا معاملہ دیکھا کہ ’’علم طب‘‘ کی پوری تاریخ اس کی مثال پیش کرنے سے عاجز ہے۔
تینوں سلاخیں اس کے جسم میں نہایت عجیب انداز میں پیوست ہوئی تھیں۔ پہلی سلاخ نے دائیں جانب کی نچلی پسلیوں سے گزرتے ہوئے پتے اور معدے میں سوارخ کر دیا تھا، پھر رگ جان کے بالکل سامنے اس کو چھوتے ہوئے اور کوئی نقصان پہنچائے بغیر جسم کے پچھلے حصے کی بائیں جانب سے نکل گئی تھی۔ اگر اس رگ جان کو ذرا بھی نقصان پہنچتا تو یہ چند سیکنڈوں میں دم توڑ دیتا۔
دوسری سلاخ پسلیوں کے نیچے سے ہوتی ہوئی جگر کے نچلے حصے کو چھوتے ہوئے گزر گئی، لیکن اسے کوئی نقصان نہیں پہنچایا۔ پھر اسی طرح ورید کی نچلی نالی کو چھوتے ہوئے ریڑھ کی ہڈی کے مہروں کو توڑ ڈالا تھا، لیکن حرام مغز کو کوئی گزند نہیں پہنچائی۔ اگر اس کو کوئی نقصان پہنچتا تو مریض کا نچلا آدھا حصہ مفلوج ہو کر رہ جاتا اور خود سے پاخانہ پیشاب کرنے پر قادر بھی نہ ہوتا۔ یہ سلاخ کچھ مہروں کو توڑتے ہوئے جسم کے پچھلے حصے کے بائیں جانب سے نکل گئی تھی۔
تیسری سلاخ ران کے اوپری حصے سے داخل ہوئی اور ران کی رگوں اور شریانوں کے درمیان سے جگہ بناتے ہوئے مثانے اور ناف کے بالکل قریب سے گزر کر دوسری طرف سے نکل گئی تھی۔ نہ ہی اس نے رگوں اور شریانوں کو اور نہ ہی ناف اور مثانے کو نقصان پہنچایا تھا۔
تین گھنٹوں کی سرتوڑ کوششوں کے بعد پہلی سلاخ اور پھٹے ہوئے پتے اور معدہ کے کچھ متاثرہ لوتھڑوں کو اس کے جسم سے نکالنے کا عمل مکمل ہوا۔ دوسری اور تیسری سلاخ بھی اس کے بعد باری باری نکال دی گئی۔ حیرت انگیز بات یہ کہ اس کے پیٹ کے تمام کے تمام اعضائے رئیسہ مکمل محفوظ رہے۔ خون کی گردش میں بہتری آنے پر بائیں کلائی کی ہڈی اور دائیں کی بھی اپنی جگہ بیٹھ گئی۔ نبض بھی معمول کے مطابق چلنے لگی اور اس طرح اس کی جان خطرات کے وسیع صحراؤں میں بھٹکتی بھٹکتی بالآخر باہر نکلنے میں کامیاب ہوگئی۔‘‘
ڈاکٹر ابراہیم فواد کہتے ہیں کہ یہ نہایت ہی نادر اور دشوار صورت تھی، جس سے زندگی میں پہلی بار سابقہ پڑا۔ اعضائے انسانی پر تحقیق کرنے والے سائنس دان بھی اگر مکمل منصوبہ بندی کے ساتھ ان سلاخوں کو جسم انسانی سے گزارنا چاہیں تو اس انتہائی درجے کی مہارت کے ساتھ کہ شریانوں، وریدوں اور اعضائے رئیسہ کو کوئی نقصان نہ پہنچے، وہ ہرگز کامیاب نہ ہوں گے۔
’’صابر علی احمد‘‘ اب ’’ہرم‘‘ کے اسپتال کی دوسری منزل پر سفید چادر کے بستر پر محو آرام ہے۔ وہ اب بھی اپنے اوپر گزری مصیبت کی داستان نحیف آواز میں سناتا ہے۔ تقدیر الٰہی پر مضبوط یقین اور اعتماد کے ساتھ وہ اس بات پر رب تعالیٰ کا شکر ادا کرتا ہے کہ اگر وہ لوہے کی سلاخیں اس کے جسم میں پیوست نہ ہوتیں تو اس کا جسم زمین سے ٹکرا کر چور چور ہو جاتا۔
یہ دراصل اس ایمان کی علامت ہے، جو ایک مسلمان کے وجدان میں رگ وریشے کی طرح پیوست ہوتا ہے اور خون کی طرح اس کے جسم میں دوڑتا ہے۔ (راحت پانے والے، تصنیف: شیخ ابراہیم الحازمی، استاذ کنگ سعود یونیورسٹی، ریاض سعودی عرب)
٭٭٭٭٭