حق تعالیٰ جل شانہٗ نے اپنے پیارے رسولؐ کی سنت کے اتباع میں نے حیرت انگیز قوت رکھی ہے۔ ذیل کے واقعہ سے اس کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے:
خلیفہ دوم سیدنا فاروق اعظمؓ کے دور کا واقعہ ہے۔ اس وقت اسلامی لشکر کی ممالک کو فتح کرتا ہوا سیلاب کی طرح آگے بڑھ رہا تھا۔ یہاں تک کہ ایران و عراق سے آگے نکل کر وسطی ایشیا کے کسی علاقے میں پہنچ چکا تھا۔ وہاں اسلامی لشکر نے ایک شہر اور قلعے کا محاصرہ کر رکھا تھا، لیکن وہ قلعہ فتح نہیں ہو رہا تھا۔
دشمن قوم اتنی مضبوط اور جنگجو تھی کہ قابو میں نہیں آرہی تھی۔ اس قلعہ کو فتح کرنے کے جتنے طریقے ہو سکتے تھے، وہ سارے آزمائے گئے۔ لیکن قلعہ فتح ہونے کی کوئی صورت نہ بن سکی۔
مجبور ہوکر انہوں نے امیر المؤمنین حضرت عمر فاروقؓ کی طرف خط لکھ کر بھیجا اور صورت حال سے آگاہ کیا۔ انہوں نے اس کا جو حل تجویز فرمایا، اس سے سنت کی طاقت کا اندازہ ہوتا ہے۔
آپؓ نے اس کیلئے کوئی مادی حل تجویز نہیں کیا بلکہ جوابی خط میں لکھا کہ سب مجاہدین کو جمع کرو اور پھر خود بھی اپنا جائزہ لو اور ان سے بھی کہو کہ وہ اپنا جائزہ لیں، ایسا معلوم ہوتا ہے کہ کوئی سنت تم سب سے چھوٹے رہی ہے۔ جائزہ لو کہ وہ کون سی سنت ہے، جس پر تم سب نے عمل چھوڑ رکھا ہے۔ جب وہ سمجھ میں آجائے تو سب اس پر عمل کریں اور پھر حق تعالیٰ سے فتح کی دعا کرکے حملہ کردیں۔ رب تعالیٰ نے چاہا تو فتح ہوگی۔
جب سپہ سالار کے پاس یہ خط پہنچا تو اس نے سب مجاہدین کو جمع کیا اور یہ خط پڑھ کر سنایا۔ سب نے مل کر غور کیا کہ ہم سے کون سی سنت چھوٹ رہی ہے۔ بظاہر ساری سنتوں پر عمل ہو رہا تھا۔ کافی غور کے بعد یہ سامنے آیا کہ ہم سفر کی حالت میں تھے، اس لئے بہت دنوں سے ہم نے مسواک نہیں کی۔ چنانچہ کمانڈر نے سارے لشکر کو حکم دیا کہ جاؤ مسواک لے کر آؤ اور سنت مسواک پر عمل کرو، لشکر کے تمام افراد جنگل میں پھیل گئے، وہاں سے مسواک بنا کر لے آئے اور مسواک کی سنت پر عمل کرنے لگے۔
مؤرخین نے لکھا ہے کہ اس زمانے میں مسلمانوں کا کفار پر اتنا رعب بیٹھا ہوا تھا کہ عورتیں اپنے بچوں کو مسلمانوں سے ڈراتی تھیں۔ مثلاً جب کوئی بچہ شرارت کرتا تو ماں کہتی: دیکھو باز آجاؤ، ورنہ مسلمان کو بلالوں گی اور انہوں نے اس بات کو مشہور کر دیا تھا کہ مسلمان، آدمیوں کو کچا کھا جاتے ہیں۔
جب مسلمانوں نے مسواک کرنا شروع کی تو اوپر قلعہ پر کھڑے ہوئے کفار حیرت سے دیکھنے لگے کہ نہ جانے کیا قصہ ہوا کہ کمانڈر کا ایک حکم ملنے پر یہ سب کے سب اپنے دانتوں کو تیز کر رہے ہیں۔ پھر خیال آیا کہ ہم نے جو سن رکھا ہے کہ مسلمان لوگوں کو کچا کھا جاتے ہیں تو شاید ہمیں کچا کھانے کی تیاری ہے۔
جمعہ کا دن اور صبح کا وقت تھا۔ مسواک سے فارغ ہونے کے بعد سپہ سالار نے حکم دیا کہ اب حملہ کرو۔ کفار اس خیال سے کہ یہ اب ہمیں کچا کھا جائیں گے، ڈر گئے اور بھاگ کھڑے ہوئے اور جمعہ کی نماز سے پہلے قلعہ فتح ہوگیا۔ نیز اسلامی لشکر نے جمعہ کی نماز قلعہ کے اندر جاکر پڑھی۔
(بے مثال واقعات)
٭٭٭٭٭