وزیر خانم نے بیٹے کو مرزا غالب کے پاس جانے سے منع کردیا

نواب مرزا کے قدم شہزادے کے جلوس کی طرف بڑھتے چلے گئے۔ اسے ایک لحظہ کو خیال گزرا کہ یہ بدتمیزی میں شمار ہوگا، لیکن کوئی کشش اسے کھینچے لئے جاتی تھی۔ پاس پہنچ کر وہ کورنش بجا لایا اور آگے بڑھ کر درگاہ سے نکلنے والا تھا کہ شہزادے کے کسی اشارے پر ایک چوبدار نے اس کے شانے پر ہلکا سا ہاتھ رکھا اور کہا: ’’جناب کو صاحب عالم و عالمیان یاد فرماتے ہیں‘‘۔
یاد فرماتے ہیں؟ مجھے؟ نہیں کوئی بھول ہوئی ہے۔ صاحب عالم مجھے کیا جانیں۔ نواب مرزا نے گھبرا کر دل میں کہا۔ وہ کچھ احتجاج کرنے ہی والا تھا کہ کہاروں نے فتح الملک بہادر کا ہوا دار زمین پر رکھ دیا اور چوبدار نے نواب مرزا کے شانے پر ہاتھ رکھے رکھے اسے میرزا فتح الملک بہادر کے سامنے کر دیا۔ نواب مرزا نے ڈرتے سہمتے ہوئے تسلیم کی اور نگاہ جھکا کر ٹھہر گیا۔
’’ جیتے رہو‘‘۔ بے حد شائستہ آواز آئی، نیچی لیکن بالکل واضح، اور ایسی ٹھکی ہوئی جیسے پیتل کی تھالی بج اٹھی ہو۔ ’’ہمیں تمہاری مودب کورنش پسند آئی۔ کیا نام ہے تمہارا، کس کے بیٹے ہو؟‘‘
’’س… سرکار، م… میں، نواب شم… شمس الدین احمد خان کا بیٹا ہوں، نواب مرزا مجھے کہتے ہیں‘‘۔
’’اچھا… شمس الدین احمد والی فیروز پور جھرکہ و لوہارو کے فرزند ہو؟‘‘
’’سرکار نے درست فرمایا‘‘۔
’’بھئی سبحان اللہ، رئیسانہ سبھاؤ کے شخص تھے، یہیں تو مدفون ہیں۔ اور تم لوگ اب…؟‘‘۔
’’عالی جاہ، خانہ زاد اب اپنی والدہ صاحب کے ساتھ چاندی چوک خانم کے بازار میں حضور کے سائے دن گزارتا ہے‘‘۔
’’وہ… تمہاری وال…‘‘ اتنا کہہ کر شاہزادے نے توقف کیا۔ اسے شاید یہ خیال آگیا تھا کہ مستورات کے بارے میں کچھ پوچھنا خلاف تہذیب ہے۔ ’’اچھا، ہمارا سلام کہنا‘‘۔ مرزا فتح الملک بہادر نے کچھ زیر لب سے انداز میں کہا اور ہوادار کو کچھ اشارہ کیا جسے نواب مرزا نہ دیکھ سکا مگر کہاروں نے اسے فوراً سمجھ کر ہوادار کو اٹھا لیا اور چلنے پر آمادہ ہوئے۔
’’پرورش ہے حضور کی‘‘۔ کہہ کر نواب مرزا نے تین تسلیمیں کیں اور جلوس کے مکمل گزر جانے تک یونہی کھڑا رہا، گویا کسی فکر میں ہو۔
واپسی کا راستہ نواب مرزا نے اسی ادھیڑ بن میں گزارا کہ صاحب عالم و عالمیان نے مجھے بطور خاص کیوں توجہ کے لیے منتخب کیا۔ لیکن گھر پہنچ کر اس نے ماں کو کچھ نہ بتایا۔ اپنے ہمجولیوں میں تحقیق کرنے پر بھی مرزا فتح الملک بہادر کے بارے میں کوئی ایسی بات نہ معلوم ہو سکی جس سے کچھ حال کھلتا کہ انہوں نے اپنا ہوادار روک کر نواب مرزا سے باتیں کیوں کی تھیں۔ بس یہی معلوم ہوا کہ نہایت مذہبی، نیک دل شہزادے ہیں۔ شاعر بھی ہیں، رمز تخلص کرتے ہیں، استاد ذوق کے شاگرد ہیں۔ نواب مرزا نے خیال کیا کہ ادھر ادھر لوگوں سے ملنے ملانے جاؤں گا تو شاید بات کچھ کھل سکے۔ شہر کے اساتذہ سے ملنے کا خیال اسے پہلے ہی سے تھا۔ اس نے شام کو اپنی ماں سے کہا: ’’اماں جان میں کل کسی وقت مرزا نوشہ صاحب کے یہاں جاؤں گا‘‘۔
وزیر خانم الجھن میں پڑگئی۔ ’’میرزا غالب کے بارے میں… آپ جانتے تو ہیں؟‘‘۔ اس نے کچھ رک رک کر پوچھا۔
’’جی کیوں نہیں، فارسی کے بہت بڑے استاد، ریختہ میں بھی ان کا پایہ سب مانتے ہیں‘‘۔
’’مگر… مگر آپ کے مرحوم باپ کے بارے میں… تو انہوں نے کچھ اچھے خیالات نہ رکھے تھے‘‘۔
’’جی ہاں، میں نے بھی کچھ سنا تو ہے۔ لیکن وہ وقت اور تھا‘‘۔
’’اور یہ بھی سوچ لیجئے کہ آج کے لوہارو والوں سے غالب صاحب کا بہت خلا ملا ہے، اور سارے لوہارو والے آپ کے دشمن نہیں تو دوست بھی نہیں ہیں‘‘۔
’’مگر اماں جان، یہ تو شاعروں کی دنیا ہے۔ یہاں سب عالم دیگر ہیں‘‘۔
’’افوہ بھئی میرا منہ ہی کھلوایئے گا؟ میں پوچھتی ہوں اپنے باپ کے مخالف کے یہاں جانا آپ کو پھبتا ہے کیا؟‘‘۔ وزیر نے تیز لہجے میں کہا۔
’’اماں جان‘‘۔ نواب مرزا نے بہت ٹھہرے ہوئے، متین لہجے میں کہا۔ ’’میں ہمیشہ سے کہتا ہوں کہ مضیٰ ما مضیٰ پر عمل کرنا اور گزشتہ زمانوں کو حافظے میں کہیں دفن کر دینا ہی مناسب ہے‘‘۔
’’اللہ اب آپ مجھے عقل سکھائیں گے! آپ کے باپ کے قاتلوں کو تو بہت اچھا معلوم ہوگا کہ صاحب زادے نے سب کچھ معاف کر دیا‘‘۔ وزیر غصے سے روہانسی ہو رہی تھی۔
نواب مرزا نے فوراً مراجعت کی۔ ’’اماں جان، آپ خفا نہ ہوں۔ آپ جو چاہیں گی وہی ہوگا۔ میں نے تو ایک بات کہی تھی کہ شعر و سخن والے اپنا الگ ہی عالم رکھتے ہیں۔ اور مرزا صاحب کا تو کچھ براہ راست اس معاملے میں دخل بھی نہ تھا۔ میں اگر شاعر بنا تو ان ہی لوگوں سے میرے سابقے پڑیں گے۔ کوئی میرا استاد ہوگا، کوئی رہنما ہوگا۔ کوئی ساتھی سنگی بھی بن سکتا ہے‘‘۔ وہ مسکرایا۔ ’’استاد تو مجھے بھی ہونا ہے‘‘۔
وزیر نے بھی فوراً رخ بدلا۔ بیٹے کو خفا دیکھنا اس کے لیے غیر ممکن تھا۔
’’بیٹا میں تمہارے ہی بھلے کی کہتی تھی۔ اونچ نیچ دیکھ لو، پھر پاؤں باہر رکھو۔ شہر میں بہیترے استاد پڑے ہیں‘‘۔
’’جی بجا ارشاد۔ آپ فکرمند نہ ہوں‘‘۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment