سرفروش

عباس ثاقب
یہ ایک ایسے شخص کی کہانی ہے جس نے نوجوانی کے امنگوں بھرے دور میں اپنی جان خطرے میں ڈال دی۔ صرف اس لئے کہ وطن عزیز پاکستان کو دشمنوں سے محفوظ رکھا جا سکے۔ جمال صاحب کراچی کے قدیم رہائشی ہیں اور ان دنوں گمنامی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ عمر کے آخری حصے میں بصد اصرار اس بات پر آمادہ ہوئے کہ اپنی زندگی کے تہلکہ خیز گوشوں سے پردہ اٹھائیں۔ ان کا اصل نام کچھ اور ہے۔ بعض نا گزیر اسباب کی بنا پر انہیں ’’جمال‘‘ کا فرضی نام دیا گیا ہے۔ اس کہانی کو ڈرامائی شکل دینے کیلئے کچھ زیادہ محنت نہیں کرنی پڑی۔ کیونکہ یہ حقیقی ایڈوینچر کسی سنسنی خیز ناول سے زیادہ دلچسپ ہے۔ جمال صاحب کی کہانی ان لوگوں کیلئے دعوتِ فکر ہے، جنہیں یہ ملک بغیر کسی جد و جہد اور محنت کے ملا اور انہوں نے اس کی قدر کرنے کے بجائے اسی سے شکایات شروع کر دیں۔ امید ہے کہ قسط وار پیش کی جانے والی یہ کہانی ’’امت‘‘ کے خوش نظر قارئین کی پذیرائی حاصل کرے گی۔ (ادارہ)
اگلے روزصبح سویرے سچن بھنڈاری کو اس کے دفتر چھوڑنے کے بعد میں نے اپنا آٹو رکشا چھتر پتی شیوا جی ریلوے اسٹیشن کے قریب رکشا اسٹینڈ سے ذرا ہٹ کر کھڑا کیا اور فٹ پاتھ پر مٹر گشت کے لیے نکل گیا۔ خاصی تگ و دو کے بعد میں چنا جور گرم فروخت کرنے والے ایک ہاکر کو اس کی منہ مانگی رقم اداکرکے اس کا پورا ’’کاروباری سیٹ اپ‘‘ خریدنے میں کامیاب ہوگیا۔ اپنا یہ مال و متاع آٹو رکشے میں رکھ کر میں اپنے گھر پہنچا اور شام کا انتظار کرنے لگا۔ اس دوران میں نے اپنے حلیے کو کسی چناجور گرم فروخت کرنے والے سے مشابہ بنالیا تھا اور اپنے لیے ایک مخصوص بلند آہنگ اور توجہ کھینچنے والا تجارتی نعرہ بھی گھڑ لیا تھا۔
میری خواہش تھی کہ اپنے مسکن سے نیوی نگر تک چناجور گرم بیچتے ہوئے پہنچوں۔ لیکن پھر ادراک ہوا کہ کم ازکم تین میل کا وہ فاصلہ طے کرنے میں مجھے بہت وقت لگ جائے گا۔ چنانچہ مجھے ایک بار پھر اپنے آٹو رکشے کا سہارا لینا پڑا۔ البتہ اپنی سواری میں نے سچن کے گھر سے لگ بھگ دو فرلانگ پہلے ایک ورک شاپ والے کے پاس سروس کیلئے چھوڑ دی۔
اس پُرسکون علاقے کے گلی کوچوں میں چناجور گرم مزے دار، چٹخارے دار، دل بہار کے نعرے لگانے میں ابتدا میں مجھے خاصی جھجک محسوس ہوئی۔ چناجور والی جست کی چپٹی پتیلی کو مسلسل اٹھائے رکھنا اور اس کے نیچے منسلک چھوٹی سی انگیٹھی کے کوئلوں کو لگاتار دہکتے رکھنا بھی ایک درد سر تھا۔ لیکن جب چناجور گرم کی خاصی تیزی سے فروخت شروع ہوئی تو میرے اعتماد میں اضافہ ہوا اور میری پکار میں بھی چنا جور جیسا کرارا پن آگیا۔
علاقے کے سبھی گلی کوچوں کا گشت لگانے کے بعد میں نے اپنی کمر پر لدھے چھوٹے سے لمبوترے مونڈھے کو سچن کے گھر سے لگ بھگ چالیس گز کے فاصلے پر ایک مناسب جگہ رکھا اور اپنا چنا جور گرم کا پتھارا قائم کر کے بیٹھ گیا۔ رفتہ رفتہ میرا یہ خدشہ دور ہوگیا کہ مجھے وہاں سے بھگا دیا جائے گا۔ بلکہ وقفے وقفے سے محلے کے بچے اور بڑے بھی مجھ سے چنا جور خرید کر لے جاتے رہے۔ اس دوران میں وقفے وقفے سے چنا جور گرم کی آوازیں لگا رہا تھا، جو میرے اندازے کے مطابق سچن کے گھر کے اندر بھی بخوبی سنائی دے رہی ہوگی۔ لیکن وہاں سے کسی نے میرے سودے میں دلچسپی کا مظاہرہ نہیں کیا۔
رات کا پہلا پہر شروع ہوتے ہی ٹھنڈ بڑھنے لگی اور گلیوں میں لوگوں کی آمد و رفت بھی ماند پڑنے لگی۔ مجھے لگا کہ کچھ ہی دیر میں میری وہاں موجودگی بے ڈھنگی لگنے لگے گی، چنانچہ میں نے اپنی اس روز کی مصروفیت کا خاتمہ کیا اور وہاں سے چل پڑا۔ کچھ ہی فاصلے پر مجھے ایک آٹو رکشا مل گیا، جس نے مجھے گھر پہنچا دیا۔ میرا اپنا آٹو رکشا، جس ورک شاپ پر میرا منتظر تھا، وہ تو جانے کب کی بند ہو چکی ہوگی۔
اگلے روز گلی کوچوں کا چکر لگانے کے بجائے میں اپنا آٹو رکشا لے کر سیدھا اپنے چنا جور گرم کے عارضی اڈے پر پہنچا۔ رکشے کو ایک الگ تھلگ گوشے میں کھڑا کر کے میں نے گلی کے کونے پر دکان جمالی۔ وہ ہفتہ وار تعطیل سے پہلے والی رات یعنی ویک اینڈ تھا، چنانچہ مجھے سچن کے حوالے سے کسی پیش رفت کی کافی امید تھی۔ شراب کی بوتل والے مشاہدے نے اس کے حوالے سے ان معلومات کی خاصی حد تک تصدیق کر دی تھی جو اس سے متعلق دستاویز میں درج تھیں۔ اگر باقی معلومات بھی مستند تھیں تو آج کی رات سچن گھر سے باہر گزارنے والا تھا۔
رات کا پہلا پہر شروع ہی ہوا تھا کہ اچانک مجھے سچن کے کوارٹر کا گیٹ کھلتا دکھائی دیا۔ وہ خود سچن ہی تھا۔ گیٹ کھولنے کے بعد وہ اندر گیا اور اپنی گاڑی میں باہر نکلا۔ گاڑی باہر کھڑی کر کے اس نے اس بار گیٹ کو باہر سے تالا لگایا اور درمیانی رفتار سے ایک طرف روانہ ہوگیا۔ اس دوران میں مجھے اپنی دکان سمیٹ کر رکشے میں رکھنے کا موقع مل گیا تھا اور مجھے فاصلہ رکھ کر اس کا تعاقب کرنے میں کوئی مشکل پیش نہیں آئی۔
ابتدا میں خاصے فاصلے تک اس کے راستے سے یوں لگ رہا تھا کہ وہ سیدھا اپنے دفتر کی طرف جارہا ہے۔ لیکن پھر چھتر پتی شیوا جی ریلوے اسٹیشن کی چورنگی سے اس نے روٹ قدرے بدل لیا۔ اس کی ڈرائیونگ سے کوئی جلد بازی ہویدا نہیں ہو رہی تھی۔ بالآخر اس نے ایک قدیم طرز کے دو منزل رہائشی ہوٹل کے سامنے گاڑی روک دی۔ ایلفنسٹون نامی اس ہوٹل کے نیچے کئی طرح کی طعام گاہیں تھیں، جبکہ رہائشی کمرے اوپری دو منزلوں پر واقع رہے ہوں گے۔
گاڑی کھڑی کرکے سچن پُر اعتماد قدموں سے ہوٹل کے استقبالیہ اور اوپری منزلوں کی طرف جانے والے زینے کی طرف بڑھا۔ اس دوران میں نے بھی اپنا آٹو رکشا کھڑا کر دیا تھا اور اس سے چند ہی قدم پیچھے چل رہا تھا۔ وہ ہوٹل کے زینے والے دروازے کے پاس پہنچا تو وہاں تعینات دربان نے نہایت جوشیلی انداز میں اسے سلیوٹ کیا۔ میں نے سنا، وہ کہہ رہا تھا ’’کا حال ہیں سچن بابو؟ بھگوان قسم، بہت ہینڈسم لگت ہو اس سوٹ ماں!‘‘۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment