اقبال اعوان
محکمہ صحت اور بلدیاتی اداروں کی نااہلی کے سبب کراچی میں عید کے تینوں دن اوجھڑی مافیا سرگرم رہی۔ سنیٹری ورکرز کی ملی بھگت سے گداگروں نے جھگیوں میں ہزاروں جانوروں کی اوجھڑیاں جمع کرلیں، جن کو ندی نالوں میں دھویا جاتا رہا۔ ذرائع کے مطابق یہ اوجھڑیاں کراچی میں چھپرا ہوٹلوں اور ٹھیلے، پتھارے والوں کو فروخت کی جائیں گی۔ جبکہ بیرون ملک اوجھڑیاں بھیجنے والے بھی گداگروں سے رابطے کر رہے ہیں۔ طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ صنعتی ایریا کے نالوں میں شامل انتہائی مہلک کیمیکل والا گندا پانی شامل ہوتا ہے۔ چنانچہ اوجھڑی، ندی نالوں میں دھونے سے انتہائی مضر صحت ہو جاتی ہے اور اسے کھانے والے کا جگر، معدہ، گردے اور دماغ پر مضر اثرات مرتب ہوتے ہیں اور فالج بھی ہوسکتا ہے۔ طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ محکمہ صحت اور دیگر ادارے ان اوجھڑیوں کو جلا کر تلف کرائیں۔
کراچی میں بقرعید کے موقع پر جانوروں کو کاٹ کر گوشت حاصل کرلیا جاتا ہے۔ جبکہ کھال فروخت کردی جاتی ہے یا کسی ادارے کو دے دی جاتی ہے۔ دیگر آلائشیں کچرا کنڈی میں پھینک دی جاتی ہیں، جن میں جانوروں کے پیٹ سے نکلنے والا پیٹا، جس کو اوجھڑی بھی کہا جاتا ہے، اس کے علاوہ انٹریاں، سری اور چربی وغیرہ شامل ہیں۔ کراچی میں ہر سال لگ بھگ 14 سے پندرہ لاکھ جانور کٹتا ہے، جس میں اونٹ، بکرے، دنبے، گائے، بیل اور بھینس شامل ہوتی ہیں۔ اس مرتبہ بھی سندھ حکومت کے شعبے سالٹ ویسٹ مینجمنٹ بورڈ کو جہاں آلائشیں جمع کرنے کی ہدایت کی گئی، وہیں مقامی ڈی ایم سی کے ورکرز بھی آلائشیں اٹھاتے رہے۔ سرکاری محکموں کے ذرائع کے مطابق لگ بھگ 10 لاکھ جانوروں کی آلائشیں شہر سے باہر بنائی گئی ڈمپنگ جگہوں پر ڈالی گئیں۔ تاہم دو ڈھائی لاکھ آلائشیں اوجھڑی مافیا کے کارندے گداگر لے جاتے رہے۔ گداگر ان آلائشوں میں اوجھڑی کو کاٹ کر اندر موجود گوبر سمیت دیگر غلاظت نکال دیتے ہیں اور اوجھڑی، انٹریوں کے ساتھ اٹھا لیتے ہیں۔ انہیں جھگیوں میں اکٹھا کیا گیا اور گداگر مرد اور عورتیں ان اوجھڑیوں کو ندی نالے کے پانی میں دھو کر نمک لگا کر محفوظ کرتے رہے۔ یہ کام تین روز تک ہوتا رہا، لیکن سرکاری اداروں نے کوئی کارروائی نہیں کی۔ حالانکہ لاکھوں جانوروں کی اوجھڑی اور انتڑیوں کو بیرون ملک برآمد کرکے سرکاری لاکھوں ڈالر کا زرمبادلہ کمایا جا سکتا ہے۔ تاہم حکومتی توجہ نہ ہونے پر اوجھڑی مافیا کے لوگ ہر سال لاکھوں روپے کماتے ہیں۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ کراچی میں اوجھڑی اور اس کے ساتھ موجود ’’بٹ‘‘ کو شہری بہت رغبت سے کھاتے ہیں۔ بعض لوگ بقرعید پر اپنے جانوروں کی اوجھڑی صاف کرکے محفوظ کرلیتے ہیں۔ تاہم ایسے شہریوں کی تعداد بمشکل 5 فیصد ہوتی ہے۔ جبکہ کراچی میں لگ بھگ 5 ہزار چھپرا ہوٹلوں اور ٹھیلے پتھاروں پر اوجھڑی اور بٹ پکا کر فروخت کی جاتی ہے۔ عام دنوں میں اوجھڑی سلاٹر ہاؤسز سے لائی جاتی ہے، جو مہنگی پڑتی ہے۔ تاہم بقرعید پر جانوروں کی اوجھڑیاں سستے داموں اکٹھی کرلی جاتی ہیں۔ عیسیٰ نگری، پی آئی بی کالونی اور دیگر آبادیوں میں کئی ہوٹلوں پر بٹ اور اوجھڑی کے سالن کی ڈشیں بڑی تعداد میں فروخت ہوتی ہیں۔ بقرعید کے دوسرے روز میڈیا پر خبریں نشر کی جاتی رہیں کہ لیاری ندی میں درجنوں افراد سینکڑوں اوجھڑیاں دھو رہے ہیں۔ تاہم کسی سرکاری ادارے نے ایکشن نہیں لیا۔ تین ہٹی پل کے نیچے سے گزرنے والی لیاری ندی میں بھی یہ سرگرمیاں نظر آئیں۔
ذرائع نے بتایا کہ کراچی میں گداگر بقرعید کے دوران کافی طریقوں سے مال کماتے ہیں۔ ان میں ہندو خاندان بھی ہیں، جو کولہی اور بھیل برادری سے تعلق رکھتے ہیں۔ بقرعید سے ایک روز قبل وہ چھری چاقو تیز کرکے تیار رکھتے ہیں اور جونہی شہری قربانی کرکے آلائشیں پھینکتے ہیں تو وہ اوجھڑیاں اکٹھی کرلیتے ہیں۔ مرد، عورتیں اور بچے سب کچرا کنڈیوں، سڑکوں کے کنارے کا رخ کرتے ہیں۔ آلائشیں جمع ہونے والے پوائنٹس پر سنیٹری ورکرز بھی ان کو 10 روپے اوجھڑی کے حساب سے اوجھڑی اٹھانے دیتے ہیں۔ وہ شام تک اوجھڑیاں جمع کرتے ہیں اور جھگیوں میں لے آتے ہیں۔ یہاں پر لاکر ندی نالوں کے اندر ان کو دھویا جاتا ہے اور پھر نمک لگا کر جھونپڑیوں میں جمع کرلیا جاتا ہے۔ ذرائع کا کہنا تھا کہ تین طرح کے ٹھیکے دار ان سے رابطوں میں ہوتے ہیں۔ ایک انٹریاں لیتے ہیں۔ جبکہ اوجھڑی حاصل کرنے والے لوکل سطح کے ٹھیکے دار ہوتے ہیں جو شہریوں کو اوجھڑی اور بٹ فروخت کرنے والوں کو یہ مال دیتے ہیں۔ تیسرے ٹھیکے دار بیرون ملک بھجوانے والے ہوتے ہیں۔ ذرائع کے مطابق گداگر ایک اوجھڑی پر 20 سے 25 روپے کا سمندری نمک لگا کر رکھتے ہیں۔ ٹھیکے دار ان سے چھوٹے بڑے جانور کی اوجھڑی 40 سے سے 100 روپے تک میں خریدتے ہیں۔ ذرائع نے بتایا کہ انٹریاں یورپ، امریکہ، آسٹریلیا اور کینیڈا بھی بھیجی جاتی ہیں جو وہاں خاص پسند کی جاتی ہیں۔ پاکستان بھر میں چند مخصوص بیوپاری بکرے اور دنبوں کی آنتوں کو مختلف کمیائی عمل سے محفوظ کرکے بیرون ملک برآمد کرتے ہیں۔ لاہور، راولپنڈی اور کراچی کی 50 سے زائد کمپنیاں اس شعبے سے وابستہ ہیں۔ بیرون ملک میں ان آنتوں میں سبزی، چھوٹے بڑے گوشت اور مرغی کے گوشت کو بھر کر کھایا جاتا ہے۔ اس ڈش کو ’’ساسج‘‘ کہا جاتا ہے۔ حکومتی سطح پر اس حوالے سے توجہ نہیں دی جاتی۔ بلکہ ہر سال لاکھوں جانوروں کی آلاشیں دفن کرکے ضائع کردی جاتی ہیں۔
تین ہٹی پل کے نیچے لیاری ندی کے اطراف قائم جھگی پٹی میں لگ بھگ 200 سے زائد خاندان آباد ہیں۔ وہاں کی مکین خاتون سکینہ کا کہنا تھا کہ وہ عید سے پہلے چھری چاقو تیز کرالیتے ہیں اور نمک کی بوریاں لاکر رکھ دی جاتی ہیں۔ اس کا کہنا تھا کہ میڈیا میں خبر چلی تو پولیس والے یہاں سے فی جھونپڑی 500 روپے بھتہ لے کر چلے گئے۔ ہندو عورت ساوتری کا کہنا تھا کہ اس کا تعلق عمر کوٹ سے ہے اور اس کے خاندان کے لوگ یہیں رہتے ہیں۔ بقرعید کے سیزن میں وہ لوگ پچیس سے تیس ہزار روپے کما لیتے ہیں۔
جامعہ کراچی کے شعبہ فوڈز سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے پروفیسر ڈاکٹر عابد حسنین کا کہنا ہے کہ حیرت ہے کہ کھلے عام ندی نالوں میں اوجھڑیاں دھوئی جاتی رہیں اور محکمہ صحت، بلدیاتی ادارے اور دیگر سرکاری ادارے لاتعلق رہے۔ صنعتی ایریاز میں واقع فیکٹریوں سے جو مہلک کیمیکل فضلہ یا پانی نکلتا ہے، وہ سب ندی نالوں میں آتا ہے۔ یہ کیمیکل انسانی جسم کے ہر نظام کو نقصان دیتے ہیں۔ پیٹ کے امراض، جگر، گردے، دماغ کے ساتھ ساتھ یہ دیگر بیماریوں کو پیدا کرتے ہیں اور فالج تک نوبت آسکتی ہے۔ ان آلودہ اوجھڑیوں کو تلف کرنا چاہئے۔
٭٭٭٭٭