آتش کی زمین میں داغ نے قیامت ڈھادی

نواب مرزا نے مرزا نوشہ کے یہاں جانے کا خیال ترک کر دیا، لیکن ابھی وہ کہیں اور بھی نہ گیا تھا کہ اس کا نام بلا مبالغہ زبانوں پر چڑھ کر سارے شہر میں متداول ہوگیا اور بجائے اس کے کہ وہ مرزا غالب کے دروازے پر دستک دیتا، خود مرزا صاحب کو فکر ہوئی کہ اس ہونہار لڑکے کو بلوایئے اور اس کی ہمت افزائی کیجئے۔
خواجہ حیدر علی آتش مدتوں سے نابینا تھے، درویشانہ مزاج الگ، کہیں جانا تو بڑی بات تھی، کسی سے ملتے بھی شاذ ہی تھے۔ لیکن جب بھی کبھی کوئی تازہ کلام وہ تصنیف کرتے، شاگردوں اور مداحوں کے ذریعے بہت جلد سارے لکھنئو میں پھیل جاتا اور پھر دلی تک پہنچ جاتا۔ شیخ ناسخ کے انتقال (1838) کے بعد اب دیار شرق میں یہی خواجہ صاحب تھے، جن کا نام دلی والے بھی ادب سے لیتے تھے۔ خواجہ آتش کے بارے میں بھی سنتے تھے کہ اب ان کا چل چلاؤ ہی ہے، دید جو ہوجائے غنیمت سمجھو، خدا جانے کل کو یہ ہم میں ہوں نہ ہوں۔ چنانچہ جب ان کی تازہ غزل دہلی آئی، مطلع:
مگر اس کو فریب نرگس مستانہ آتا ہے
الٹتی ہیں صفیں گردش میں جب پیمانہ آتا ہے
تو بہت سے شعرائے دہلی نے اس پر غزل کہی۔ کئی محفلیں ترتیب دی گئیں، جن میں خواجہ صاحب کے مصرع اول (مگر اس کو فریب نرگس مستانہ آتا ہے) کو طرح قرار دیا گیا۔ یہ سلسلہ کئی دن سے چل رہا تھا اور داغ نے بھی غزل اس زمین میں کہی تھی۔ اس کے کئی شعر فوراً زباں زد خلائق ہوکر اساتذہ کے ایوانوں تک پہنچے۔ مطلع تو خیر ذرا سست تھا۔
مجھے اے اہل کعبہ یاد کیا بت خانہ آتا ہے
ادھر دیوانجاتا ہے ادھر مستانہ آتا ہے
مگر بعد کے کئی شعر تو قیامت شور انگیز تھے۔ خاص کر مندرجہ ذیل شعر تو داغ کی زبان سے ادا ہوتے ہی سارے شہر میں مشہور ہو گیا تھا کہ ایسی ادا بندی، ایسا نیا اور رنگین مضمون کبھی سنا نہ گیا تھا، شعر میں کیا بندھتا
رخ روشن کے آگے شمع رکھ کر وہ یہ کہتے ہیں
ادھر جانا ہے دیکھیں یا ادھر پروانہ آتا ہے
میر کے ریختوں کی طرح لوگ نواب مرزا داغ کے شعروں کو گلیوں میں گاتے پھرتے تھے
جگر تک آتے آتے سو گرتا ہوا آیا
ترا تیر نظر آتا ہے یا مستانہ آتا ہے
دغا شوخی شرارت بے حیائی فتنہ پردازی
تجھے کچھ اور بھی اے نرگس مستانہ آتا ہے
نواب مرزا کے ساتھ شہر کی سیر کرنے والوں اور جگہ جگہ شہر کی محفلوں میں کلام خوانی کرنے والوں میں ایک تو خواجہ امان کے بیٹے قمرالدین راقم تھے، کہ جن کی عمر یہی کوئی بارہ تیرہ برس کی ہوگی اور جنہوں نے راقم تخلص کے ساتھ شعر گوئی ابھی ابھی شروع کی تھی اور مرزا نوشہ سے، کہ ان سے کچھ قرابت بھی تھی، رشتہ تلمذ استوار کیا تھا۔ ظاہر ہے کہ ابھی شعر کیا کہتے، لیکن حویلی کے تعلق کی وجہ سے لوگ انہیں ہاتھوں ہاتھ لئے رہتے تھے کہ وہ حضرت ظل سبحانی سے تیر اندازی سیکھتے تھے اور فرصت کے وقتوں میں شعر گوئی کی مشق کرتے تھے۔ نواب مرزا کے دوسرے دوست سید ظہیر الدین حسین المتخلص بہ ظہیر دہلوی عمر میں کچھ بڑھے ہوئے تھے، یہی کوئی اٹھارہ انیس کا سن ہوگا۔ لیکن شادی نہیں ہوئی تھی، اس لئے مزاج ان کا اس وقت لڑکوں بالوں میں زیادہ ملتا تھا۔ شعر میں مرزا نوشہ کے شاگرد، خوش نویسی میں کبھی کبھی بادشاہ ذی جاہ سے اصلاح لیتے تھے، کہ ظہیر کے والد ماجد حلاج الدولہ سید جلال الدین حیدر مرصع رقم خان بہادر و یاقوت رقم ثانی نے بادشاہ کو خوشنویسی کی تعلیم دی تھی۔ یہ تین دوست، یا ہمجولی، الگ الگ عمریں، لیکن ایک طرح کا مزاج، ظہیر الدین حسین کو ان میں سید الطائفہ کی حیثیت حاصل تھی، لیکن وہ باقی دونوں سے ایک حد کے اندر بے تکلف بھی تھے۔ شہر کے لوگوں کی نگاہوں میں وہ آہی چکے تھے کہ تین ہونہار اور صاف ستھرے سبھاؤ والے نوجوان ہیں اور نواب مرزا داغ سے میرزا غالب کی دلچسپی اس پر مستزاد۔ سنجوگ تو ہونا ہی تھا۔ ’’رخ روشن…‘‘ والے شعر نے شہر میں دھوم مچا ہی رکھی تھی کہ انہیں دنوں میں ایک بار میرزا غالب نے اپنے گھر کے بالا خانے والی کوٹھری کے دریچے سے تینوں کو دیکھا کہ کلائیوں میں گجرے ڈالے، پاؤں میں گھیتلی جوتیاں اور بر میں ڈھیلے پاجامے پہنے، سر پر مرصع ٹوپیاں اوڑھے، آنکھوں میں ہلکی سی سرمے کی لکیر، غرض سیلانی بے فکروں کی صورت سیر بازار کو چلے جاتے ہیں۔
میرزا صاحب نے بیتاب ہو کر وہیں سے پکارا:
’’ ابے اولمڈو! کہاں نکلے جاتے ہو، ادھر تو آؤ، میرے پاس آؤ!‘‘۔
تینوں دوستوں نے بیک وقت چونک کر اوپر نظر کی تو مرزا غالب صاحب کا چہرہ، خوبروئی میں مثال گلشن اور ذکاوت کے نور سے مزین، سامنے تھے۔ ہڑبڑا کر تینوں ’’جی بہت اچھا‘‘ کہتے ہوئے اوپر پہنچے اور مرزا صاحب کے حجرے کے دروازے میں کھڑے ہوکر تین تین تسلیمات بجا لائے۔ ظہیر اور راقم تو مرزا صاحب سے بخوبی واقف تھے، نواب مرزا کے دل میں خلجان تھا کہ دیکھیں ہمارے ساتھ کیسی گزرے۔ ماں سے جو باتیں مرزا نوشہ اور اہل لوہارو کے بارے میں ہوئی تھیں، وہ سب اسے بخوبی یاد تھیں۔ ہرچہ بادا باد کہہ کر اس نے دہلیز پر قدم رکھا اور ایک بار پھر تسلیم کی: ’’تسلیمات عرض کہتا ہوں حضور‘‘۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment