شیخ ابراہیم الحازمی، استاذ کنگ سعود یونیورسٹی ریاض لکھتے ہیں کہ موت کا ایک وقت مقرر ہے، آنے پر نہ تو ایک گھڑی آگے ہوگی اور نہ ایک گھڑی پیچھے، لیکن وہ کب آئے گا؟ یہ کوئی نہیں جانتا، لہٰذا بندہ مومن کو ہر وقت تیار رہنا چاہیے۔
حدیث میں ہے:
ترجمہ: ’’ عقل مند شخص وہ ہے جو اپنے نفس کو قابو کر لے اور موت کے بعد کام آنے والے اعمال کرے اور عاجز ہے وہ شخص جو اپنے نفس کو خواہشات کی پیروی میں لگا دے اور خدا پر امیدیں باندھے۔‘‘ (سنن الترمذی، صفۃ القیامۃ و الرقائق و الورع، باب، الرقم: 2404)
منشی ’’ ابو اصبع‘‘ کہتے ہیں:
’’ میں ’’ مقام شیراز‘‘ میں ’’ابو الحسن علی بن خلف‘‘ کی خدمت میں تھا، جو اس وقت وہاں کے ذمہ دار تھے۔ ان کے وزیر کی طرف سے ایک سفارشی آیا، جو مال و دولت کا خواہاں تھا۔ ابو الحسن، وزیر کے پرانے ’’ذمہ داروں‘‘ میں سے تھے۔ وزیر نے اپنے خط میں اس سفارشی کے اعزاز و کرام کرنے کا حکم دیا تھا۔
پہلے دن اس کے لیے دسترخوان لگایا گیا تو اس نے کھانا نہ کھایا اور کہا کہ مجھے عذر ہے۔ جب کھانے پر بہت اصرار کیا گیا تو اس نے انگلیوں کے پوروں پر چند لقمے لے لیے اور آستین سے اپنے ہاتھ باہر نہیں نکالے۔
اگلے دن ’’ علی بن خلف‘‘ نے اپنے مصاحبوں (ہم نشینوں) سے کہا:
’’ ہر آدمی ایک ایک دن اس کی دعوت کرے۔‘‘
چنانچہ سب نے اس کی دعوت کرنا شروع کر دی، لیکن کھانے سے متعلق اس کا رویہ پہلے دن جیسے تھا، ویسا ہی رہا اور اس میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ اس کے اس طرز عمل کی وجہ سے لوگوں کا اس کے متعلق یہ خیال ہوگیا کہ شاید اس کو برص یا جذام کا مرض ہے۔
جب میری باری آئی تو اس نے یہاں بھی چند لقمے کھانے کے بعد اپنا ہاتھ کھینچ لیا۔ میں نے اس سے درخواست کی کہ آپ اطمینان سے کھائیں اور آستین چڑھا لیں! لیکن اس نے انکار کر دیا۔ میں نے پھر اس سے التجا کی:
’ بھائی! آپ کھانے میں تکلف برت رہے ہیں، آپ آستین چڑھا کر بالکل بے تکلف ہو کر کھائیں! اگر خدانخواستہ آپ کے ہاتھوں میں کوئی مرض ہے تو چنداں فکر نہ کریں، ہمیں اپنا ہی سمجھیں!‘‘
میری درخواست پر اس نے فوراً اپنی آستینیں اوپر کر دیں۔ اس کی کلائی اور بازو پر پچاس سے زیادہ زخم تھے۔ بعض مندمل (بھر گئے) تھے اور بعض رس رہے تھے اور ان پر دوائی لگی ہوئی تھی، بڑا بھیانک منظر تھا۔ پھر اس نے کھل کر اور رچ کر خوب کھایا پیا۔
صحت خدا تعالیٰ کی عظیم نعمت ہے، جس کی قدر بیماری میں معلوم ہوتی ہے۔ جس شخص کو کوئی جسمانی دکھ یا تکلیف پہنچے تو اس کو دور کرنے کے لیے اپنا دایاں ہاتھ تکلیف کی جگہ پر رکھے اور تین مرتبہ بسم اللہ پڑھے اور ساتھ مرتبہ یہ دعا پڑھے:
اعوذ باللہ و قدرتہ من شر ما اجد و احاذرہ
ترجمہ: ’’ میں خدا اور اس کی قدرت کی پناہ لیتا ہوں اس تکلیف کے شر سے جو مجھے ہو رہی ہے اور جس سے میں ڈر رہا ہوں۔‘‘ (صحیح مسلم، السلام، باب استحباب وضع یدہ علی موضع الالم مع الدعا، الرقم: 2202)
ہم نے پوچھا: ’’قصہ کیا ہے اور یہ زخم کیسے لگے؟‘‘
اس نے کہا:
’’ بڑا دل چسپ قصہ ہے، لیکن مجھے اندیشہ ہے کہ آپ اسے جھٹلا دیں گے!‘‘
میں نے کہا:
’’ یہ خیال دل سے نکال دو! ہم ہمہ تن گوش ہیں اور اب آپ اطمینان سے اپنا واقعہ سنائیں!‘‘
اس نے کہا:
’’ گزشتہ سال جب میں وزیر کی خدمت میں حاضر ہوا تو اس نے مجھے ایک خط دے کر دمشق کے گورنر کی طرف روانہ کر دیا اور مجھے یہ ہدایت کی کہ اس پر دباؤ ڈال کر اور اسے ہراساں کرکے مال کا مطالبہ کروں۔(جاری ہے)
٭٭٭٭٭