اولاد کو رب کے سپرد کیا

ایک مرتبہ خلیفہ منصور نے حضرت عبد الرحمنؒ سے کہا کہ آپ مجھے نصیحت فرمائیں۔ حضرت عبد الرحمنؒ نے فرمایا کہ امیر المومنین حضرت عمر بن عبد العزیزؒ جب انتقال فرما گئے تو ان کے ورثاء میں گیارہ لڑکے اور ترکہ یعنی وراثت میں صرف سترہ دینار تھے۔ جن میں سے پانچ دینار کا کفن کیلئے کپڑا خریدا گیا اور دو دینار سے قبر کے لئے زمین خریدی گئی اور بقیہ دینار لڑکوں میں تقسیم کر دیئے گئے۔ ہر لڑکے کے حصے میں انیس درہم آئے۔
اسی طرح امیر المومنین خلیفہ ہشام بن عبد الملک نے بھی بوقت وفات گیارہ لڑکے چھوڑے۔ ان کی میراث میں نقد رقوم کی مقدار ایک کروڑ دس لاکھ درہم تھی۔ چنانچہ ہر لڑکے کو خلیفہ کو وراثت میں سے دس دس لاکھ درہم ملے۔ پس میں نے ان کے بعد حضرت عمر بن عبد العزیزؒ کی اولاد میں ایک کو دیکھا کہ اس نے راہ خدا میں جہاد کے لئے ایک سو گھوڑے بھیجے اور سب خوش حال تھے۔ جبکہ خلیفہ ہشام کی اولاد میں سے ایک لڑکے کو بھیک مانگتے ہوئے دیکھا۔ پنجابی شاعر میاں محمد بخشؒ فرماتے ہیں:
بادشہاں تھیں بھیکھ منگاوے تخت بہاوے گاہیکجھ پروا نہیں گھر اسدے دائم بے پرواہی مطلب یہ ہے کہ حق تعالیٰ چاہے تو وہ بادشاہوں سے بھیک منگوا دیتا ہے اور ایک ادنیٰ گھسیارے یعنی گھاس کھودنے والے کے سر پر شاہی تاج رکھ کر اسے تخت پر بٹھا دیتا ہے۔ اس کی بارگاہ میں کسی چیز کی بھی پروا نہیں ہے۔ وہ بے نیاز ہے اور اس کی بارگاہ میں ہمیشہ ہی بے پروائی رہتی ہے۔
حیاۃ الحیوان کے مصنف علامہ دمیریؒ فرماتے ہیں کہ یہ واقعہ باعث حیرت نہیں ہے، کیونکہ حضرت عمر بن عبد العزیزؒ نے اپنی اولاد کو حق تعالیٰ کے سپرد کر دیا تھا۔ پس حق تعالیٰ ان کے لیے کافی ہوگئے اور ان کو غنی کر دیا۔ نیز ہشام بادشاہ نے اس کے برعکس اپنے بیٹوں کو دنیا کے سپرد کر دیا تھا۔ پس رب تعالیٰ نے ان کو حقیر کر دیا۔ حضور اقدسؐ کا ارشاد ہے کہ بندوں کو خدا تعالیٰ پر کامل بھروسہ ہو تو وہ انہیں اس طرح روزی پہنچائے جیسا کہ پرندوں وغیرہ کو روزی دیتا ہے۔ ہر روز نیا روزی نئی۔ (حیاۃ الحیوان، ص 360)
موت کی جگہ مقرر ہے:
ایک دن حضرت سلیمانؑ کے پاس ملک الموت آدمی کی شکل میں ملاقات کیلئے آئے، اس وقت حضرت سلیمانؑ کا ایک وزیر بھی بیٹھا ہوا تھا۔ ملک الموت نے اس وزیر کی طرف کئی مرتبہ غور کے ساتھ دیکھا۔ جب ملک الموت (موت کا فرشتہ) چلے گئے تو وزیر نے حضرت سلیمانؑ سے پوچھا یا حضرت! یہ کون شخص تھا؟
حضرت سلیمانؑ نے فرمایا: عزرائیلؑ۔ وزیر نے کہا: مجھے کئی بار عزرائیلؑ نے گھورا، اس سے مجھے بڑا خوف پیدا ہوا، آپ ہوا کو حکم دیجئے کہ مجھے بوماس کے جزیرے میں پہنچا دے۔ حضرت سلیمانؑ نے ہوا کو حکم دیا (رب تعالیٰ نے ہر چیز آپؑ کے تابع کی ہوئی تھی) اور فوراً وزیر ہوا کے گھوڑے پر سوار ہوکر کئی ہزار میل جزیرہ بوماس میں جا داخل ہوا، جونہی اس جگہ قدم رکھا، حضرت عزرائیلؑ آموجود ہوئے اور اس وزیر کی روح قبض کی۔
کئی روز بعد پھر عزرائیلؑ حضرت سلیماؑن کی خدمت میں آگئے اور آپؑ نے اپنے وزیر کا قصہ بیان کیا۔ حضرت عزرائیلؑ نے عرض کیا: اس روز جو میں اس شخص کی طرف بار بار دیکھتا تھا کہ اس کی یہی وجہ تھی۔ میں حیران تھا کہ اس شخص کی مدت حیات پوری ہو چکی ہے اور تھوڑی دیر بعد جزیرہ بوماس میں مجھے اس کی روح قبض کرنے کا حکم ہے۔ یہ یہاں کیوں بیٹھا ہے؟ نتیجہ یہ ہے کہ انسان کا خمیر جہاں کا ہے، وہیں اس کو مرنا ہے۔
ارشاد باری تعالی ہے۔
ترجمہ: ’’جب موت آجائے تو وہ مؤخر یعنی آگے پیچھے نہیں ہو سکتی۔‘‘ (پ 29 س نوح آیت 4)
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment