اردن کا تاریخی درخت

مفتی محمد تقی عثمانی دامت فیوضہم فرماتے ہیں:
میں اردن کے دو سفروں کی روداد اپنے سفر نامے ’’احد سے قادسیہ تک‘‘ میں لکھ چکا ہوں جو ’’جہان دیدہ‘‘ میں شائع ہوا ہے۔ اس کے بعد بھی بار باراردن جانا ہوتا رہا ہے، لیکن شوال 1431ھ میں میرا اردن کا جو سفر ہوا، اس میں دو معلومات نئی حاصل ہوئیں۔ وہ اس تحریر کے ذریعے مختصر قارئین کی نذر کرنا چاہتا ہوں۔
حکومت اردن کی سرپرستی میں ایک ادارہ قائم ہے، جس کے سربراہ شہزادہ غازی بن محمد (ملک عبداللہ، شاہ اردن کے عم زاد اور مشیر خاص) بڑے علمی ذوق کے حامل ہیں اور میری عربی اور انگریزی تالیفات کے واسطے سے مجھ سے غائبانہ متعارف ہی نہیں ہیں، بلکہ بڑی محبت رکھتے ہیں اور ان سے خط و کتابت کا رشتہ بھی قائم ہے۔ مختلف موضوعات پر گفتگو کے دوران انہوں نے بتایا کہ اردن میں وہ جگہ دریافت ہوئی ہے، جہاں حضور نبی کریمؐ اپنی نوعمری کے زمانے میں اپنے چچا ابو طالب کے ساتھ تشریف لائے تھے اور وہاں بحیرا راہب سے آپؐ کی ملاقات ہوئی تھی۔ وہاں وہ درخت ابھی تک موجود ہے، جس کے سائے میں آپؐ نے قیام فرمایا تھا اور اگر آپ میرے ساتھ وہاں جانا چاہیں تو میں آپ کو وہاں لے جاؤں؟
میرے لیے یہ بڑی سعادت کی بات تھی۔ میں نے بڑے اشتیاق کے ساتھ یہ دعوت قبول کرلی۔ چنانچہ کانفرنس ختم ہوتے ہی شہزادہ غازی ہمیں ایک فوجی ایئر پورٹ لے گئے۔ وہاں ایک بڑا ہیلی کاپٹر تیار تھا، جس میں قریباً دس آدمیوں کے بیٹھنے کا انتظام تھا۔
شہزادہ کے ساتھ ان کے گھر کے کچھ بچے بھی تھے اور میرے علاوہ نئے شیخ الازہر، شیخ احمد الطیب، مصر کے (سابق) مفتی علی جمعہ اور شہزادے کے ذاتی محافظین بھی ہیلی کاپٹر میں سوار ہوئے۔
ہیلی کاپٹر عمان سے شمال مشرق کی طرف سفر کرتا ہوا تقریباً پچاس منٹ میں منزل مقصود تک پہنچا۔ یہ پورا راستہ لق و دق صحرا پر مشتمل تھا، جس میں کہیں کہیں چھوٹے چھوٹے خشک ٹیلے اور زمین سے چپکی ہوئی چھوٹی چھوٹی جھاڑیاں ضرور دکھائی دے جاتی تھیں اور وہ بھی گرمی سے جھلسی ہوئی۔
پچاس منٹ کے سفر کے بعد ہیلی کاپٹر اسی صحرا میں اترا تو افق سے افق تک پھیلے ہوئے ریگستان کے عین درمیان، ایک ہرا بھرا درخت نظر آیا جو اس لق و دق صحرا میں نمایاں دکھائی دے رہا تھا۔ یہی وہ درخت تھا جس کے بارے میں یہ اندازہ کیا جا رہا ہے کہ اس کے سائے میں آنحضرتؐ تشریف فرما ہوئے تھے۔
پہلے اس واقعے کا خلاصہ عرض کردینا مناسب ہے جو حدیث اور سیرت کی مختلف کتابوں میں مختلف طریقے سے بیان ہوا ہے۔
جامع ترمذی میں مضبوط سند کے ساتھ حضرت ابو موسیٰؓ سے مروی ہے کہ حضور سرور کائناتؐ کے اعلان نبوت سے پہلے آپؐ کے چچا ابوطالب قریش کے کچھ بزرگوں کے ساتھ شام کے سفر پر روانہ ہوئے اور حضورؐ بھی آپ کے ساتھ تھے۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment