نجم الحسن عارف
پنجاب کے وزیر اعلیٰ عثمان بزدار نے صوبے میں خیبر پختون جیسی پولیس اصلاحات کے اپنے اعلان کے صرف چند دن بعد پولیس کے اعلیٰ افسر رضوان عمر کو محض اس لیے تبدیل کر دیا کہ متعلقہ افسر نے پاکپتن کے اہم جاگیردار اور موجودہ خاتون اول کے سابقہ شوہر خاور مانیکا سے ان کے ڈیرے پر جاکر معافی مانگنے سے انکار کر دیا تھا۔ ڈی پی او پاکپتن کے خلاف فوری طور پر انکوائری کا بھی حکم دے دیا گیا ہے۔ پولیس ذرائع کے مطابق وزیر اعلیٰ عثمان بزدار نے ڈی پی او پاکپتن رضوان کو یہ حکم جمعہ کے روز دیا تھا کہ وہ خاور مانیکا کے ڈیرے پر جائیں۔ 23 اگست کی رات ایک بجے ان کی گاڑی کو پولیس کی طرف سے روکنے پر ان سے معذرت کریں۔ لیکن پولیس افسر نے اسے قواعد کے خلاف حکم سمجھتے ہوئے ماننے سے انکار کر دیا، جس کے بعد پیر کے روز ڈی پی او کو انکار کی قیمت اس صورت میں ادا کرنی پڑی کہ انہیں فوری طور پر ان کی ذمہ داری سے سبکدوش کر کے او ایس ڈی بنا دیا گیا۔ اس صورت حال کے بارے میں آئی جی پولیس پنجاب کے ترجمان نے وضاحتی بیان میں کہا ہے کہ ایسا نہیں ہے کہ ڈی پی او پاکپتن کو خاور مانیکا کی گاڑی کو روکنے یا کسی دبائو کے باعث تبدیل کیا گیا ہے۔ بلکہ پولیس اہلکاروں کی ایک شہری سے بدتمیزی کے واقعے کے بارے میں باز پرس پر ڈی پی او رضوان عمر کی جانب سے بار بار غلط بیانی پر یہ قدم اٹھایا گیا۔ ترجمان کے مطابق رضوان عمر کو غیر ذمہ دارانہ رویے اور غلط بیانی پر تبدیل کیا گیا۔ تاہم ترجمان پنجاب پولیس نے اپنی وضاحت میں پولیس اہلکاروں نے جس شہری سے بدتمیزی کی، اس کا نام سامنے لانے سے گریز کیا ہے۔
’’امت‘‘ کے ذرائع کا کہنا ہے کہ پاکپتن میں پیر غنی کے نام سے خاور مانیکا کی خاندانی جاگیر ہے۔ وہ رات ایک بجے کے قریب اپنی اسی جاگیر پر قائم رہائشگاہ سے اپنی جاگیر میں واقع قصبے فرید کوٹ کی طرف جا رہے تھے۔ ان کی گاڑی کے آگے اور پیچھے مسلح محافظوں کی گاڑیاں تھیں۔ انہیں پولیس کے معمول کے ناکے پر روکا گیا۔ ذرائع کے بقول اس علاقے میں پولیس چوکی کے قیام کے لیے جگہ بھی خاور مانیکا نے ہی فراہم کر رکھی ہے۔ بلکہ یہ چوکی بنیادی طور پر انہی کی فرمائش پر بنائی گئی اور ایک عرصے سے قائم ہے۔ تاہم عیدالاضحی کے بعد کی رات جب یہ واقعہ پیش آیا تو پولیس کا رویہ خاور مانیکا کو پسند نہیں آیا۔ ذرائع نے بتایا کہ ناکے پر خاور مانیکا کی گاڑیوں اور مسلح محافظوں کو روکا گیا۔ جس پر خاور مانیکا کے ساتھ موجود ان کے ہیڈ منشی نے گاڑی سے اتر کر پولیس اہلکاروں سے بات کی اور اس دوران پولیس والوں کو برا بھلا کہا گیا کہ انہوں نے میاں خاور مانیکا کی گاڑی کو روک کر اچھا نہیں کیا۔ اس دوران خاور مانیکا گاڑی میں ہی بیٹھے رہے۔ بعد ازاں ہیڈ منشی نے واپس آکر انہیں پولیس کے اقدام کے بارے میں بتایا تو خاور مانیکا نے ڈی پی او پاکپتن کو فون کرایا۔ لیکن ڈی پی او نے ان کے اس مؤقف کو مسترد کر دیا کہ پولیس نے ان کی یا اس کے مسلح محافظوں کی گاڑیوں کو روک کر کوئی غلطی کی ہے۔ یہ بات میاں خاور مانیکا کے لیے تشویش کا باعث بنی اور اس کا بعد ازاں علم بنی گالہ اور وزیر اعظم ہائوس میں بھی ہو گیا۔ جس پر واقعے کا نوٹس لیا گیا۔ دوسری جانب پولیس ذرائع کا دعویٰ ہے کہ خاور مانیکا جن کی گاڑی کو 23 اگست کی رات ایک بجے پولیس ناکے پر روکا گیا تھا، نہ رکی اور بعد ازاں پولیس کو ان کی گاڑی کا تعاقب کرنا پڑا۔ اس پر وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے ڈی پی او کو طلب کیا اور خاور مانیکا سے ان کے ڈیرے پر جاکر معافی مانگنے کے لیے کہا۔ لیکن ڈی پی او رضوان عمر نے ایسی کسی معافی سے انکار کر دیا۔ اس کا حکومت میں اعلیٰ سطح پر برا منایا گیا اور ’’نافرمان‘‘ پولیس افسر کو پیر کے روز تبدیل کر کے او ایس ڈی بنا دیا گیا۔
تبدیل کئے گئے ڈی پی او کی رہائش گاہ واقع پاکپتن پر تعینات سرکاری عملے نے فون پر رابطہ کرنے پر ’’امت‘‘ کو بتایا کہ ڈی پی او صاحب آئی جی پنجاب پولیس سے اس وقت میٹنگ کر رہے ہیں، اس لیے فون پر دستیاب نہیں ہو سکتے۔ ’’امت‘‘ نے رضوان عمر کے موبائل پر ایک سے زائد مرتبہ رابطہ کرنے کی کوشش کی۔ انہیں واٹس ایپ پر میسیج بھی بھجوایا، لیکن ان کی طرف سے کوئی جواب نہیں دیا گیا۔ بلکہ ان کی طرف سے بار بار فون بند کیا جاتا رہا۔ دوسری جانب آئی جی آفس کے ترجمان نے آئی جی پولیس کلیم امام کے ساتھ تبدیل کئے گئے ڈی پی او رضوان عمر کی پیر کے روز کسی ملاقات یا میٹنگ کا انکار کر دیا۔ وزیر اعلیٰ کے ترجمان نے بھی اس بارے میں دو ٹوک انداز میں کہا کہ وزیراعلیٰ نے ڈی پی او کے ساتھ جمعہ کے روز کوئی ملاقات کی، نہ اس بارے میں ’’انوالو‘‘ ہوئے اور نہ ہی پیر کے روز وزیر اعلیٰ نے ڈی پی او کو طلب کیا تھا۔ البتہ ترجمان نے کہا کہ اس بارے میں پولیس ترجمان کی طرف سے ایک وضاحتی بیان سامنے آرہا ہے۔
’’امت‘‘ کے ذرائع کے مطابق پنجاب میں پولیس ریفارمز کے تمام تر دعوئوں کے باوجود صوبائی کابینہ وجود میں آنے کے دن پولیس کے اعلیٰ افسر کی محض ایک اہم شخصیت کو ناکے پر روکنے کے سبب ہٹایا جانا غیر معمولی واقعہ ہے۔ اس سے آئندہ دنوں مجوزہ مشیر برائے پولیس اصلاحات ناصر داران کو بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ حکومتی ہدایت پر پولیس کی جانب سے جاری کئے گئے وضاحتی بیان میں ’’شہری‘‘ کا نام نہ لکھنے اور اس سے شعوری گریز سے صاف محسوس ہوتا ہے کہ وہ شہری خاور مانیکا یا ان کے خاندان کے افراد کے علاوہ کوئی اور نہ تھا۔ اور یہ کہ انہیں روکنا خاتون اول پاکستان بشریٰ بی بی کے لیے قابل برداشت نہیں ہو سکتا تھا۔ واضح رہے کہ بشریٰ بی بی نے رواں سال ہی خاور مانیکا سے طلاق لے کر موجودہ وزیراعظم عمران خان سے شادی کی ہے۔ تاہم بشریٰ بی بی کے اپنے بچوں کے علاوہ خاور مانیکا سے اچھے تعلقات کی کبھی تردید نہیں آئی۔ بلکہ دو طرفہ مثبت خبریں سامنے آتی رہتی ہیں جس سے صاف لگتا ہے کہ دونوں خاندانوں کا آپس میں آج بھی گہرا رابطہ اور احترام کا تعلق موجود ہے۔ اس لیے خاور مانیکا کے ساتھ پولیس رویے کو وزیر اعظم ہائوس اور بنی گالہ میں بھی سخت ناپسند کیا گیا ہے، جس کے بعد ڈی پی او کو اپنی پوزیشن چھوڑنا پڑی۔
٭٭٭٭٭