میں اور میرے والدین عیسائی مذہب کے پروٹسٹنٹ فرقے سے تعلق رکھتے تھے۔ میں محض والدین کے احترام کے طور پر ان کے ساتھ چرچ جاتا تھا۔ میرا خیال تھا کہ چرچ سماجی سرگرمیوں کے لیے ہے۔ مذہب میں سب سے اہم چیز اخلاق اور کیریکٹر ہے۔ عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں میرے خیالات بہت الجھے ہوئے تھے اور میں کسی سے بحث مباحثہ کی جرأت بھی نہ کرتا تھا۔ میرے والدین نے مجھے مذہب کی تعلیمات پر زیادہ کاربند ہونے کے لیے کبھی مجبور نہ کیا، بلکہ مجھے میرے حال پر چھوڑ دیا۔
میں یہاں یہ اعتراف کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ عیسائی مذہب کے بارے میں میری کم علمی اور کم عملی کا یہ نتیجہ ہوا کہ میرا ذہن دیگر مذاہب کے لیے متعصب نہ بن سکا اور میں وسعتِ قلبی سے نئے نئے تجربات کا تجزیہ کرتا رہا۔
میں اب تک اپنی زندگی کے اہم ترین مقصد اور مستقبل میں کام کاج کے بارے میں کچھ طے نہ کر پایا تھا، اس لیے میں ایک دوست کے ہمراہ امریکہ اور کینیڈا کی سیر و سیاحت کو نکلا، تاکہ زندگی کی دوڑ دھوپ سے کنارہ کش ہو کر اپنے مستقبل کے بارے میں غور و فکر کر سکوں، امریکہ میں وسیع پارک ہر جگہ موجود ہیں، ہم نے ہوٹلوں کے بجائے انہی پارکوں میں قیام کیا، میں جہاں بھی جاتا دلکش قدرتی مناظر دل موہ لیتے، میں نے سوچا کہ یہ رنگ دار پھول، بلند و بالا درخت اور وسیع و عریض نباتات خود بخود معرضِ وجود میں نہیں آسکتے، یقیناً ان کا کوئی خالق ہے، میرے دل میں یہ خیال بیٹھ گیا کہ خدا ایک ہے، لیکن مجھے یہ سمجھ میں نہ آتا کہ اس خالق کی کیسے عبادت کروں، اور اس کی کیسے حمد بیان کروں۔
کالج سے ڈگری حاصل کرنے کے بعد میرے سب ساتھی اپنے اپنے ملکوں کو روانہ ہو گئے۔ میں نے ابوحسین سے رابطہ قائم رکھا، اس نے مجھے دو ہفتوں کے لیے سعودی عرب آنے کی دعوت دی۔ میں نے اس سفر کی تیاری شروع کر دی۔ مجھے پیرس اور قاہرہ سے ہوتے ہوئے سعودی عرب پہنچنا تھا۔ اس سفر کے دوران میں کئی عجیب و غریب واقعات پیش آئے۔ مثلاً میں نیویارک میں ایک ٹیکسی کے ذریعے ٹریول ایجنٹ کے دفتر جا رہا تھا، ڈرائیور صاحب مصری تھے، انہوں نے جلدی میں اپنی سرگزشت یوں بیان کی: میرا نام طارق ہے، میں یہاں حصولِ تعلیم کے لیے آیا تھا لیکن ناکام رہا، میں اپنے آپ سے بہت شرمندہ ہوں اور اسی وجہ سے میں نے کئی سال سے والدین سے بھی رابطہ نہیں کیا، آپ چونکہ قاہرہ جا رہے ہیں، میرا یہ خط میرے گھر پہنچا دینا، ممنون ہوں گا۔
پس قاہرہ پہنچتے ہی میں ایک ٹیکسی کے ذریعے طارق کے گھر پہنچا اور میں نے دروازے پر دستک دی۔ ایک بہت بوڑھی عورت نے دروازہ کھولا۔ میں عربی زبان میں بات چیت سے قاصر تھا۔ میں نے خط اس کے حوالے کیا اور طارق طارق کہا۔ اس نے مجھے اندر آنے کی دعوت دی اور کافی اور بسکٹ پیش کیے۔ اس کے دوسرے لڑکے بھی وہاں موجود تھے، اس عورت نے اپنی آنکھوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: طارق، یعنی کیا تم نے طارق کو اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے؟ کیا وہ زندہ ہے؟ میں نے اپنے ہاتھ آنکھوں سے مس کرتے ہوئے اور سر ہلاتے ہوئے کہا: طارق۔ اس بات چیت، مہمان نوازی اور گھر کے اندرونی ماحول نے میرے دل پر بہت گہرا اثر کیا، میں نے اتنے قریب سے ایسی تہذیب کو کبھی پہلے نہیں دیکھا تھا۔
سعودی عرب پہنچنے پر بہت گرم جوشی سے میرا استقبال کیا گیا۔ میں نے زیادہ تر وقت ریاض شہر کے قریب ایک گاؤں میں گزارا۔ یہاں مجھے آسمان تلے کھلے میدان میں سونے کا موقع ملا۔ یہاں کا طرزِ معاشرت بالکل مختلف تھا۔ ابوحسین نے چند بکرے ذبح کیے اور پورے گاؤں کے لوگوں کو دعوت دی۔ مجھے ایسی عزت افزائی زندگی بھر دیکھنی نصیب نہ ہوئی تھی، ہماری ایک دوسرے سے محبت بڑھ گئی۔ ایک دن ابوحسین نے اونٹنی کا دودھ میرے سامنے دوہا اور یہ تازہ دودھ مجھے پینے کو پیش کیا۔ جب میں اس دودھ سے لطف اندوز ہو رہا تھا، ابوحسین کے والد صاحب نے مجھ سے کہا: اگر تم مسلمان ہو جاؤ تو میں تجھے دس اونٹ بطورِ تحفہ دوں گا۔ میں نے انہیں برجستہ جواب دیا کہ اگر آپ عیسائی بن جائیں تو میں آپ کو دس اونٹ بطور ِتحفہ پیش کروں گا۔ ایسے ہی نوک جھوک چلتی رہی، بہرحال میں واپس امریکہ آگیا تاکہ اپنی ملازمت کے فرائض کو سرانجام دے سکوں۔(جاری ہے)