سو تو دھیان نہ کر اس پر جو منہ موڑے ہماری یاد سے اور کچھ نہ چاہے مگر دنیا کا جینا، بس یہیں تک پہنچی ان کی سمجھ، تحقیق تیرا رب ہی خوب جانے اس کو جو بہکا اس کی راہ سے اور وہی خوب جانے اس کو جو راہ پر آیا اور اللہ کا ہے جو کچھ ہے آسمانوں میں اور زمین میں تاکہ وہ بدلہ دے برائی والوں کو ان کے کئے کا اور بدلہ دے بھلائی والوں کو بھلائی سے، جو کہ بچتے ہیں بڑے گناہوں سے اور بے حیائی کے کاموں سے، مگر کچھ آلودگی، بے شک تیرے رب کی بخشش میں بڑی سمائی ہے، وہ تم کو خوب جانتا ہے، جب بنا نکالا تم کو زمین سے اور جب تم بچے تھے ماں کے پیٹ میں، سو مت بیان کرو اپنی خوبیاں، وہ خوب جانتا ہے اس کو بچ کر چلا۔
خلاصۂ تفسیر
(جب سابقہ آیات سے مشرکین عرب کا معاند ہونا معلوم ہوگیا کہ باجود نزول قرآن اور ہدایت کے یہ اپنے گمان اور ہویٰ پر چلتے ہیں اور معاند سے قبول حق کی امید نہیں ہوتی) تو آپ ایسے شخص سے اپنا خیال ہٹا لیجئے جو ہماری نصیحت کا خیال نہ کرے اور بجز دنیوی زندگی کے اس کو کوئی (اخروی مطلب) مقصود نہ ہو (جس کی وجہ عدم ایمان بالآخرۃ ہے، جو اوپر مفہوم ہوا ہے اور) ان لوگوں کے فہم کی رسائی کی حد بس یہی (دنیوی زندگی) ہے (جب ان کی بدفہمی اور بے فکری کی نوبت یہاں تک پہنچی ہے تو ان کی فکر نہ کیجئے، ان کا معاملہ اللہ کے حوالے کیجئے بس) تمہارا پروردگار خوب جانتا ہے کہ کون اس کے راستہ سے بھٹکا ہوا ہے اور وہ ہی اس کو بھی خوب جانتا ہے جو راہ راست پر ہے (اس سے تو اس کا علم ثابت ہوا) اور (اس سے قدرت ثابت ہے کہ) جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے وہ سب اللہ ہی کے اختیار میں ہے (جب وہ علم اور قدرت دونوں کا کامل ہے اور اس کے قانون اور احکام پر عمل کرنے کے اعتبار سے لوگوں کی دو قسمیں ہیں، گمراہ اور ہدایت پر عمل کرنے والے تو) انجام کار یہ ہے کہ برا کام کرنے والوں کو ان کے (برے) کام کے عوض میں (خاص طور کی) جزاء دے گا اور نیک کام کرنے والوں کو ان کے نیک کاموں کے عوض میں (خاص طور کی) جزا دے گا (اس کا مقتضا یہ ہے کہ اسی کے حوالے کیجئے، آگے ان لوگوں کا بیان ہے جو نیکو کار محسنین ہیں) وہ لوگ ایسے ہیں کہ کبیرہ گناہوں سے اور (ان میں) بے حیائی کی باتوں سے (بالخصوص زیادہ) بچتے ہیں، مگر ہلکے ہلکے گناہ (کبھی کبھار ہو جائیں تو جس نیکو کاری کا یہاں ذکر ہے، اس میں ان سے خلل نہیں آتا، مطلب استثناء کا یہ ہے کہ محسنین جن کی اس آیت میں مدح کی گئی ہے اور ان کے محبوب خدا ہونے کا اظہار کیا گیا ہے اس کا مصداق بننے کے لئے کبیرہ گناہوں سے بچنا تو شرط ہے ، لیکن صغائر کا کبھی کبھی صدور اس محبوبیت کے منافی نہیں۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭