محمد بن اسحاقؒ کی روایت میں ہے کہ نبی کریمؐ نے خود ہی اپنے چچا ابو طالب کے ساتھ اس سفر میں جانے کی خواہش ظاہر فرمائی تھی۔ حافظ ابن کثیرؒ نے السیرۃ النبویہ ج 1، ص 140 میں اس وقت آپؐ کی عمر بارہ سال بتائی ہے۔ جب شام کے علاقے میں پہنچے تو وہاں ایک عیسائی راہب (کی خانقاہ) کے پاس انہوں نے پڑاؤ ڈالا۔ (محمد بن اسحاقؒ و دیگر کی روایت میں اس راہب کا نام بحیرا بیان کیا گیا ہے)۔
اس بات پر تمام روایات متفق ہیں کہ قریش کے لوگ اپنے شام کے سفروں میں پہلے بھی اس راہب کے پاس گزرا کرتے تھے، لیکن وہ پہلے کبھی نہ تو اپنی خانقاہ سے نکلتا تھا اور نہ کبھی ان کی طرف کوئی توجہ دیتا تھا، مگر اس مرتبہ جب انہوں نے پڑاؤ ڈالا تو یہ راہب ان کے پاس آکر حضور نبی کریمؐ کا دست مبارک پکڑ کر کہنے لگا ’’یہ سارے جہانوں کے سردار ہیں۔ یہ رب العالمین کے پیغمبر ہیں۔ جن کو حق تعالیٰ رحمۃ للعالمین بنا کر بھیجے گا۔‘‘
قریش کے لوگوں نے پوچھا: تمہیں کیا پتہ؟ راہب نے کہا کہ جب تم لوگ گھاٹی سے سامنے آئے تو ہر درخت اور ہر پتھر نے ان کو سجدہ کیا اور درخت اور پتھر نبی کے سوا کسی کو سجدہ نہیں کرتے اور میں انہیں مہر نبوت کے ذریعے پہچان رہا ہوں، جو ان کے مونڈھے کی ہڈی سے نیچے سیب کی طرح موجود ہے۔ پھر اس قافلے کے لیے کھانا تیار کیا۔
ترمذی کی روایت میں ہے کہ وہ کھانا وہیں درخت کے پاس لے کر آیا۔ اس وقت حضور اقدسؐ اونٹوں کو چرانے گئے ہوئے تھے۔ جب واپس تشریف لائے تو قافلے کے دوسرے لوگ درخت کے سائے میں بیٹھ چکے تھے اور اب سائے میں بیٹھنے کی کوئی جگہ باقی نہیں رہی تھی، لیکن جب حضورؐ تشریف لائے تو درخت کی شاخوں نے جھک کر آپؐ پر سایہ کردیا۔ اس پر راہب نے لوگوں کو متوجہ کر کے کہا کہ دیکھو درخت ان پر جھک کر سایہ کر رہا ہے۔ اس کے بعد اس نے پوچھا کہ ان کے سر پرست کون ہیں؟
لوگوں نے بتایا کہ ابوطالب ہیں۔ راہب نے ابوطالب سے پر زور مطالبہ کیا کہ آپ انہیں لے کر آگے نہ جائیں۔ کیونکہ روم کے لوگ انہیں پہچان لیں گے اور اندیشہ ہے کہ انہیں شہید کر دیں گے۔ چنانچہ حضرت ابو بکر صدیقؓ نے آپؐ کو حضرت بلالؓ کے ساتھ واپس بھیج دیا۔ (جامع ترمذی، ابواب المناقب، باب بدء النبیؐ، حدیث نمبر 3620)
ترمذی کی اس روایت کے بارے میں محدثین کا کہنا یہ ہے کہ اس کے تمام رجال ثقہ ہیں۔ البتہ اس روایت کے آخر میں جو یہ مذکور ہے کہ جب راہب نے حضورؐ کو واپس بھیجنے کا مشورہ دیا تو حضرت ابو بکر صدیقؓ بھی اس قافلے میں موجود تھے۔ انہوں نے حضرت بلالؓ کے ساتھ انہیں واپس کر دیا۔ محدثین نے فرمایا ہے کہ یہ بات یقینی طور پر غلط ہے۔ اس لیے کہ جس وقت کا یہ واقعہ ہے، اس وقت حضرت بلالؓ یا تو پیدا ہی نہیں ہوئے ہوں گے یا اتنے چھوٹے ہی ہوں گے کہ ان کے ساتھ آپ کو بھیجنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اس کے علاوہ حضرت بلالؓ کو حضرت ابوبکر صدیقؓ نے اسلام کے بعد خریدا تھا اور یہ واقعہ حضورؐ کے اعلان نبوت سے پہلے کا واقعہ ہے۔ اس بنا پر کئی حضرات نے تو اس روایت کو صحیح ماننے سے ہی انکار کیا ہے، لیکن محقق محدثین مثلاً حافظ ابن حجرؒ کا کہنا ہے کہ اس کی وجہ سے پوری روایت کو غلط کہنا درست نہیں۔ کیونکہ اس کی سند محفوظ ہے۔ البتہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس آخری حصے میں کسی راوی سے وہم ہو گیا ہے۔ (تحفۃ الاحوذی، ج، 10، ص 93)
بسا اوقات صحیح روایتوں میں اس قسم کی جزوی غلطیاں ہوتی رہتی ہیں، جن کا روایت کے مرکزی مفہوم پر کوئی اثر نہیںپڑتا، اس لئے پوری روایت کو غلط نہیں کہا جاسکتا۔ چنانچہ یہی روایت مسند بزار میں آئی ہے، جس میں واقعہ اسی طرح بیان کیا گیا ہے جیسے ترمذی کی روایت میں مذکور ہے، لیکن اس میں یہ جملہ موجود نہیں ہے کہ حضرت ابوبکرؓ نے حضرت بلالؓ کے ساتھ حضور اکرمؐ کو واپس روانہ کردیا۔(جاری ہے)
٭٭٭٭٭