خاتون اول کی سہیلی کا شوہر پولیس افسروں کی توہین کرتا رہا

امت رپورٹ
خاتون اول بشریٰ بی بی کے سابق شوہر خاور مانیکا کی گاڑی روکنے پر ڈی پی او پاکپتن کو ہٹائے جانے کے واقعہ نے ’’تبدیلی‘‘ کے نعرے کو گہنا دیا ہے۔ یہ ایک واقعہ نہیں، بلکہ دو کہانیاں ہیں۔ ایک کہانی 5 اگست کی ہے جب عمران خان نے ابھی وزارت عظمیٰ کا حلف نہیں اٹھایا تھا اور بشریٰ بی بی خاتون اول بننے جا رہی تھیں۔ جبکہ دوسری کہانی عید کے تیسرے روز یعنی 23 کی ہے۔ جب عمران خان وزیر اعظم اور بشریٰ بی بی خاتون اول بن چکی تھیں۔ ان دونوں واقعات پر ڈی پی او پاکپتن رضوان عمر گوندل کو نہ صرف خلاف قانون وزیر اعلیٰ پنجاب کے دفتر میں طلب کیا گیا، بلکہ وہاں موجود بشریٰ بی بی کی ایک قریبی سہیلی کا شوہر احسن جمیل گجر ڈی پی او پاکپتن اور دوسرے سینئر پولیس افسر کی توہین کرتا رہا۔ بعد ازاں اس نے دونوں افسروں کو خاور مانیکا کے ڈیرے پر جا کر معافی مانگنے کا حکم دیا۔ انکار پر دھمکی دی کہ اس کے نتائج برے نکلیں گے۔ اس سارے عرصے میں وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار سر جھکائے بیٹھے رہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ خاور مانیکا اور ان کے بیٹے ابراہیم مانیکا کی ’’شان میں گستاخی‘‘ کرنے والے ڈی پی او کو سزا دلانے کے لئے خاتون اول کی دیرینہ سہیلی کی خدمات حاصل کی گئیں، جو بشریٰ بی بی کے عمران خان سے نکاح کے موقع پر بھی موجود تھیں۔ ذرائع کے بقول چونکہ احکامات انتہائی اعلیٰ سطح سے آئے تھے، لہٰذا وزیر اعلیٰ پنجاب کے پاس اس کے سوا دوسرا آپشن نہیں تھا کہ وہ ان احکامات کی تعمیل کرتے ہوئے سینئر پولیس افسروں کو خلاف ضابطہ اپنے دفتر میں بلائیں اور بعد ازاں بغیر انکوائری کے فارغ بھی کرا دیں۔
بنی گالہ تک رسائی رکھنے والے ذرائع کے مطابق پی ٹی آئی کی اعلیٰ قیادت کو توقع نہیں تھی کہ یہ معاملہ پبلک ہو جائے گا اور سوشل میڈیا، روایتی میڈیا پر ایک طوفان برپا کر دے گا۔ لہٰذا اس غیر متوقع سبکی نے وزیر اعظم کی فیملی کو ڈسٹرب کر دیا ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اس واقعہ کے حوالے سے روایتی اور سوشل میڈیا پر جو ’’جنگ‘‘ چھڑی ہوئی ہے، پی ٹی آئی نے اس سے دور رہنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ذرائع کے مطابق وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے پارٹی چیئرمین اور وزیر اعظم عمران خان کی ہدایت پر یہ مختصر بیان جاری کیا کہ پاکپتن والے معاملے کا وزیر اعظم یا ان کی فیملی سے کوئی تعلق نہیں۔ جبکہ دوسری جانب خاور مانیکا اور ان کے بیٹوں کو کہہ دیا گیا ہے کہ وہ اس معاملے پر میڈیا سے رابطہ نہ کریں، تاکہ چند روز بعد یہ ایشو خود بخود ٹھنڈا ہو جائے۔
ذرائع نے بتایا کہ بشریٰ بی بی کی بیٹی اور بیٹے نے اوکاڑہ سے پاکپتن تک ننگے پائوں پیدل چل کر بابا فرید گنج شکر ؒ کی درگاہ پر حاضری کی منت مانی تھی۔ اس پر عمل درآمد کے لئے 5 اگست کی رات کا انتخاب کیا گیا تھا۔ تاہم 25 کلو میٹر کا فاصلہ پیدل طے کر کے جب دونوں بہن بھائی پاکپتن کی حدود میں داخل ہوئے تو پولیس سے مڈبھیڑ ہو گئی۔ کیونکہ مانیکا فیملی نے اپنے روحانی عقائد کے اس عمل کو انتہائی خفیہ رکھا تھا، لہٰذا پولیس اور انتظامیہ اس سے لاعلم تھی۔ یہی چیز سارے تنازعے کا سبب بنی۔
اس معاملے کی اندرونی کہانی معروف صحافی عامر متین نے بھی نجی ٹی وی چینل پر بیان کی ہے۔ عامر متین کے بقول واقعہ سے متعلق اسپیشل برانچ نے جامع رپورٹ مرتب کی ہے۔ جس میں بتایا گیا ہے کہ پانچ اگست کو پاکپتن اسپیشل برانچ نے ڈی پی او رضوان گوندل کو اطلاع دی کہ ایک پردہ دار خاتون ایک شخص کے ہمراہ رات 8 بجے کے قریب اوکاڑہ کے بارڈر سے پاکپتن کی طرف ننگے پائوں پیدل آ رہی ہے۔ ان کے پیچھے دس سے بیس میٹر کے فاصلے پر ایک ڈبل کیبن گاڑی چل رہی ہے۔ گاڑی کا نمبر پلیٹ 814 اسلام آباد کا ہے۔ چونکہ اس سے قبل عمران خان کے بابا فرید شکر گنجؒ پر سجدوں کی ویڈیو منظر عام پر آ چکی تھی، جبکہ خاور مانیکا کا مزار کے راستوں پر سجدوں کی ویڈیو بھی وائرل تھی، لہٰذا اسپیشل برانچ کا خیال تھا کہ پیدل چلنے والی خاتون متوقع طور پر بشریٰ بی بی ہو سکتی ہیں، کیونکہ خاتون نے بالکل اسی طرح کا لباس اور پردہ کر رکھا تھا جو عموماً بشریٰ بی بی کرتی ہیں۔ 5 اگست تک یہ واضح ہو گیا تھا کہ وزیر اعظم عمران خان نے بننا ہے۔ اور یہ کہ بشریٰ بی بی خاتون اول بننے جا رہی ہیں۔ لہٰذا اسپیشل برانچ کی اس رپورٹ پر ضلعی انتظامیہ میں بھونچال آ گیا۔ پاکپتن کے ڈی پی او رضوان عمر گوندل، ساہیوال کے آر پی او شارق کمال صدیقی، کمشنر اور ڈپٹی کمشنر سب سر جوڑ کر بیٹھ گئے کہ اس صورت حال کو کیسے سنبھالا جائے، کیونکہ یہ ایک ایسی عوت کی سیکورٹی کا معاملہ تھا، جو چند روز بعد خاتون اول بننے جا رہی تھیں۔ چنانچہ فیصلہ کیا گیا کہ پہلے اس سارے منظر کی ویڈیو حاصل کی جائے، تاکہ کنفرم ہو سکے کہ اوکاڑہ سے پاکپتن کی طرف جانے والی خاتون، بشریٰ بی بی ہیں یا نہیں۔ مگر کیونکہ رات کا وقت تھا اور خاطر خواہ اسٹریٹ لائٹس بھی نہیں تھیں، لہٰذا خاصی تاریکی تھی اور پھر علاقہ بھی سنسان تھا۔ جہاں اسٹریٹ کرائم معمول کی بات ہیں۔ چنانچہ سیکورٹی کی غرض سے پیدل چلنے والی خاتون اور مرد کے آگے اور پیچھے ایک ایک پولیس موبائل لگا دی گئی۔ رات آٹھ بجے سے بارہ بجے تک یہ سلسلہ چلتا رہا۔ اس دوران اسپیشل برانچ خاتون کے ساتھ چلنے والے کی شناخت کر چکی تھی۔ وہ خاور مانیکا کے بیٹے ابراہیم مانیکا تھے۔ چنانچہ انتظامیہ کو اور بھی زیادہ یقین ہو گیا کہ پردہ دار خاتون بشریٰ بی بی ہی ہیں۔ رات 12 بجے کے قریب خاور مانیکا بھی وہاں پہنچ گئے۔ خاور مانیکا نے آتے ہی پولیس اہلکاروں پر چڑھائی کر دی کہ وہ ان کی مانیٹرنگ کیوں کر رہے ہیں۔ پولیس اہلکار انہیں سمجھانے کی کوشش کرتے رہے کہ وہ تو آپ کی فیملی کی حفاظت کے لئے ساتھ چل رہے ہیں۔ تاہم ہتھے سے اکھڑے خاور مانیکا نے ایک نہیں سنی اور بدتمیزی کی تمام حدود پار کر دیں۔ بعد ازاں انکشاف ہوا کہ پردے میں بشریٰ بی بی نہیں، بلکہ ان کی بیٹی تھیں۔ تاریکی کے باعث اسپیشل برانچ کو خاصی دشواری کا سامنا تھا۔ جبکہ انتظامیہ کا اصرار تھا کہ انہیں ثبوت لا کر دیں کہ پیدل چلنے والی خاتون بشریٰ بی بی ہیں۔ جس پر کسی نہ کسی طرح اسپیشل برانچ نے تاریکی میں خاتون کی ویڈیو بنائی، جس نے بشریٰ بی بی کی طرز کا پردہ اور لباس پہن رکھا تھا۔ ویڈیو بنانے کے دوران ابراہیم مانیکا بھی اسپیشل برانچ کے اہلکاروں پر برہم ہوتے رہے کہ وہ ویڈیو کیوں بنا رہے ہیں؟ اس سارے چکر میں صبح کے تین بجے تک انتظامیہ کی دوڑیں لگی رہیں۔
صبح کے وقت ڈی پی او پاکپتن رضوان گوندل کو کسی اعلیٰ سرکاری شخصیت کا فون آیا اور انہیں کہا گیا کہ مانیکا فیملی سے رات بھر بدتمیزی کی گئی، لہٰذا وہ خاور مانیکا کے ڈیرے پر جا کر معافی مانگیں۔ جس پر رضوان گوندل کا کہنا تھا کہ وہ یہاں کے ڈی پی او ہیں اور وہ جائے وقوعہ پر موجود بھی نہیں تھے۔ جبکہ پولیس والوں نے اپنے فرائض انجام دیئے، لہٰذا وہ کس چیز کی معافی مانگیں۔ جس پر رضوان گوندل کو تجویز دی گئی کہ وہ خاور مانیکا کے ڈیرے پر نہیں جانا چاہتے تو پھر کسی نیوٹرل مقام پر جا کر ان سے مل لیں۔ ڈی پی او رضوان گوندل نے کہا کہ وہ ابراہیم گوندل کو اپنے گھر چائے پر بلا لیتے ہیں۔ اس موقع پر ان سے وضاحت بھی کر دیں گے کہ پولیس کا مقصد ان کے روحانی معاملات میں مداخلت کرنا نہیں تھا، بلکہ وہ تو ان کی حفاظت کر رہے تھے۔ رضوان گوندل نے تحریری طور پر بھی ابراہیم مانیکا کو پیغام لکھا کہ وہ چائے پر ان کے گھر آجائیں، تاکہ غلط فہمیاں دور کر لی جائیں۔ تاہم ابراہیم مانیکا کا جواب آیا کہ انہیں ڈی پی او کے گھر جانے کی کوئی ضرورت نہیں۔ معاملے کی نزاکت کو بھانپتے ہوئے رضوان گوندل نے بڑی نرمی سے سارے معاملے کو نمٹانے کی کوشش کی، لیکن ان کی یہ کوشش کامیاب نہ ہو سکی۔ عامر متین کے مطابق انہوں نے اور ان کی ٹیم نے پاکپتن کی تمام انتظامیہ سے بڑی تفصیل کے ساتھ اس معاملے پر بات کی۔ اور معاملہ یہی نکلا جیسا بیان کیا گیا ہے۔ جبکہ معروف صحافی رئوف کلاسرا کے بقول انہوں نے بھی اس ایشو کو کائونٹر چیک کیا اور وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ غلطی مانیکا فیملی کی ہے۔ اس کا اظہار رئوف کلاسرا نے اپنے ٹویٹ میں بھی کیا اور لکھا کہ… ’’میں نے واقعہ کے حقائق جاننے کے لئے متعدد معتبر ذرائع سے رابطہ کیا اور تمام کا یہی کہنا تھا کہ مانیکا فیملی نے ڈی پی او کی تضحیک اور تذلیل کی۔ بعد ازاں وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کی طرف سے انہیں فارغ کر دیا گیا‘‘۔
اس واقعہ کے ٹھیک 18 روز بعد 23 اگست کو یہ ہوا کہ خاور مانیکا اپنی گاڑی میں پاکپتن کی طرف جا رہے تھے۔ ان کے پیچھے ڈبل کیبن میں ان کے مسلح محافظ بیٹھے تھے۔ چونکہ پاکپتن میں خاتون اول بشریٰ بی بی کی فیملی رہائش پذیر ہے، لہٰذا پولیس نے علاقے میں پیٹرولنگ بڑھا رکھی ہے۔ اور ناکے بھی لگائے گئے ہیں۔ جب خاور مانیکا کی گاڑیاں ایک ناکے پر پہنچیں تو پولیس اہلکاروں نے مسلح افراد کو دیکھ کر روکنے کی کوشش کی۔ تاہم رکنے کے بجائے دونوں گاڑیاں تیزی سے آگے نکل گئیں۔ ایلیٹ پولیس نے تعاقب کر کے جب گاڑیوں کو روکا، تو اگلی گاڑی میں موجود خاور مانیکا نے اپنا تعارف کرایا۔ جس پر پولیس اہلکاروں نے کہا کہ سر، ناکے پر رک کر آپ پہلے بتا دیتے تو تعاقب نہیں کرنا پڑتا۔ تاہم نرمی سے کہی گئی اس بات پر بھی خاور مانیکا برہم ہو گئے اور انہوں نے ایلیٹ فورس کے اہلکاروں سے نہایت بدتمیزی کی۔ انہیں برا بھلا کہنے کے بعد ڈی پی او پاکپتن رضوان گوندل کو فون بھی گھما دیا۔ رضوان گوندل کو بھی فون پر خاور مانیکا کی بدتمیزی کا سامنا کرنا پڑا۔ عید کا تیسرا دن تھا۔ سہ پہر تین بجے کے قریب رضوان گوندل اور شارق کمال صدیقی کو وزیر اعلیٰ پنجاب کے دفتر میں طلب کر لیا گیا۔ دونوں بھاگم بھاگ وزیر اعلیٰ کے دفتر پہنچے۔ وہاں ایک شخص اور بھی موجود تھا تاہم دونوں پولیس افسروں سے اس کا تعارف نہیں کرایا گیا کہ وہ کون ہے۔ اس موقع پر وزیر اعلیٰ کے بجائے مذکورہ سول شخص نے دونوں پولیس افسروں کی تفتیش شروع کر دی۔ اس کا انداز تحکمانہ تھا اور ساتھ ہی وہ بدتمیزی بھی کرتا رہا۔ اس شخص کا پہلا سوال تھا کہ مانیکا خاندان سے آپ کو کیا مسئلہ ہے؟ جس پر گوندل اور شارق کمال نے کہا کہ وہ تو سرکاری نوکر ہیں اور حفاظت کی نیت سے اپنے فرائض انجام دے رہے تھے۔ انہوں نے دونوں واقعات کی تمام تفصیل بھی بیان کر دی۔ تاہم اجنبی شخص نے رضوان گوندل کو حکم دیا کہ وہ خاور مانیکا کے ڈیرے پر جا کر ان سے معافی مانگیں۔ اور یاد دلایا کہ پہلے واقعہ پر بھی تمہیں ان کے ڈیرے پر جا کر معافی مانگنے کا کہا گیا تھا، لیکن تم نہیں گئے۔ اب تمہیں لازمی جانا ہو گا۔ اس موقع پردونوں پولیس افسروں کا کہنا تھا کہ اگر ان کی غلطی ہوتی تو وہ ضرور معافی مانگ لیتے۔ وہاں موجود پولیس اہلکاروں نے اپنے فرائض پر عمل کیا، لہٰذا وہ کسی صورت معافی نہیں مانگیں گے۔ یہ ان کے ادارے اور وردی کی شان کا معاملہ ہے۔ یہ سن کر اجنبی شخص نے دونوں پولیس افسران کو دھمکی دی کہ اگر وہ معافی مانگنے خاور مانیکا کے ڈیرے پر نہیں جائیں گے تو ان سے برا سلوک ہو سکتا ہے۔ پولیس افسران کا جواب تھا کہ چاہے جو بھی ہو وہ معافی نہیں مانگیں گے۔ دوسری جانب پاکپتن اور اس کے گرد و نواح کے تمام پولیس اسٹیشنوں کے اہلکاروں کو تفتیش کے لئے آئی جی پنجاب کے دفتر میں طلب کر لیا گیا۔ انکوائری کے لئے ایڈیشنل آئی جی کی سربراہی میں ایک کمیٹی بنائی گئی۔ تاہم ابھی انکوائری شروع بھی نہیں ہوئی تھی کہ وزیر اعلیٰ کے دفتر سے نکلتے ہی نوٹیفکیشن جاری کر دیا گیا کہ ڈی پی او پاکپتن رضوان گوندل کو عہدے سے ہٹا کر او ایس ڈی بنا دیا گیا ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ ابھی یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ آر پی او ساہیوال شارق کمال صدیقی بچ نکلیں گے یا انہیں بھی اپنے ساتھی پولیس افسر جیسے نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا۔
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment