میں نے اسلام کیسے قبول کیا

میں نے کالج سے گریجویشن کے بعد بطورِ ٹیچر کام کرنا شروع کر دیا تھا، میں ان لوگوں کو انگریزی پڑھاتا جن کی مادری زبان انگریزی نہ تھی۔ دراصل یہ پروجیکٹ ابوظہبی (Abu Dhabi) اور ٹیکساس یونیورسٹی امریکہ کے باہمی تعاون سے چل رہا تھا۔
میں پہلے چھ ماہ ابوظہبی میں قیام کرتا اور وہاں کے شہریوں کو انگریزی کی تعلیم دیتا، پھر ان شہریوں کو چھ ماہ کے لیے امریکہ لاتا اور ٹیکساس یونیورسٹی میں مزید تعلیم و تربیت دی جاتی۔ میں ابوظہبی میں چند اور امریکی اساتذہ کے ساتھ ایک ہوٹل میں مقیم تھا، اس سے مجھے عرب تہذیب سے اور زیادہ متعارف ہونے کا موقع ملا۔ میں اور دوسرے اساتذہ عرب تہذیب میں گھٹن محسوس کر رہے تھے، کیونکہ یہاں کی بعض اقدار ہماری قدروں سے مختلف تھیں۔
میرا روزمرہ کا معمول یہ تھا کہ ہوٹل سے اسکول اور اسکول سے واپس ہوٹل پہنچ جاتا، مجھے زندگی بے کیف اور بے مزہ نظر آنے لگی۔ مجھے لہو و لعب کی زندگی کی تلاش تھی، تاکہ زندگی لطف اندوز بن جائے۔ میں نے سوچا کہ یہ سب چیزیں امریکہ کے شہر لاس ویگاس (Las Vegas) میں میسر ہیں، پس میں نے بوریا بستر باندھا اور وہاں پہنچ گیا۔
لاس ویگاس میں مجھے نوکری نہ مل سکی، میں نے اخبار میں اجنبی باشندوں کو انگریزی پڑھانے کا اشتہار دیا۔ شروع میں دو تین طالب علم ملے، میں ان کو اپنے گھر کے باورچی خانے میں بورڈ آویزاں کر کے تعلیم دیتا، بتدریج طلبا کی تعداد بہت بڑھ گئی، کیونکہ اس شہر میں اکثریت غیر ملکیوں کی ہی ہے، اس سے مجھے یہ بھی واضح ہو گیا کہ میرے لیے انگلش ٹیچر کا کام نہایت مناسب ہے۔
میں نے ایک اور دوست کے تعاون سے ایک درس گاہ قائم کر لی اور ہمارا کاروبار دن بدن ترقی کرتا گیا۔ اس آسودگی کی وجہ سے میں دوبارہ جوا، شراب، لڑکیوں سے دوستی اور دیگر ایسی ہی برائیوں میں ملوث ہو گیا۔ لیکن زیادہ وقت نہ گزرنے پایا تھا کہ میں ان خبیث حرکات سے متنفر ہو گیا، کیونکہ ان سے زندگی کو کیف ملنے کے بجائے کوفت ملتی تھی۔ ایک بار پھر مجھے اپنی زندگی کی روش بدلنے کی اشد ضرورت پیش آئی۔ میں نے ابوحسین کو اپنی درخواست بھیجی تاکہ وہ مجھے سعودی عرب میں کام دلوا سکے، خوش قسمتی سے مجھے سعودی عرب کے ایک شہر جبیل (Jubail) میں انگریزی زبان کے مدرس کے طور پر ملازمت مل گئی اور میں جلد ہی سعودی عرب پہنچ گیا۔
توبہ کی طرف سفر:
ایک دن میں فلسفے کی ایک کتاب کا مطالعہ کر رہا تھا، اس میں لکھا تھا کہ انسان کو مخلصانہ توبہ کرنی چاہیے، میں نے زندگی میں کبھی توبہ نہیں کی تھی۔ اس موقع پر میں ان سب افراد کے بارے میں سوچنے لگا جن پر میں نے کسی نہ کسی طرح ظلم کیا تھا اور اسی طرح بارہا اپنی ذات پر بھی ظلم کیا تھا، یعنی میں نے اپنی حرص و ہوا اور ذاتی مفاد کو ترجیح دی تھی اور دوسروں کی عصمت اور حقوق کو پامال کیا تھا۔ میرے دل نے آواز دی کہ میرے لیے توبہ کرنا واجب ہے، پس میں نے اس دن صدقِ دل سے توبہ کی۔
کافی عرصہ بعد مجھے یہ احساس ہوا کہ حق تعالیٰ مخلصانہ توبہ ضرور قبول فرماتے ہیں۔ میری توبہ قبول ہونے کا ثبوت یہ ہے کہ اس کے بعد حق تعالیٰ نے میرے لیے ایسے حالات پیدا کیے اور ایسے ایسے لوگوں سے رابطہ قائم ہوا جو مجھے ہدایت حاصل کرنے میں بے حد مددگار ثابت ہوئے، ایسے چند واقعات کا ذکر دلچسپی سے خالی نہ ہو گا۔(جاری ہے)
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment