ڈاکوئوں نے ہمارے قریب ہی رات گزاری۔ ان کی خون خوار آنکھیں ہمارا جائزہ لے رہی تھیں۔ ہمارے لوگ کھانے پینے اور نماز پڑھنے کے لیے ادھر ادھر بکھرے گئے۔ میں نے بہت کوشش کی کہ وہ ایک جگہ اکٹھا رہیں اور اسلحہ کے سائے میںرات گزاریں، لیکن انہوں نے میری بات پر کان نہ دھرا، کیوں کہ وہ بہت تھکے ہوئے تھے، چنانچہ قافلے کی اکثریت خواب خرگوش کے مزے لوٹنے لگی۔
ہمارا دشمن اسی موقعے کی تاک میں تھا، چنانچہ اس نے غیر محسوس انداز میں ہمارے گرد گھیرا تنگ کردیا۔ اب ہماری اس وقت کی بیداری بے کار تھی۔ انہوں نے ہمیں تلواروں پر رکھ لیا اور میں تو ان کا خاص ہدف تھا، کیوں کہ مجھے انہوں نے قافلے والوں کو اکھٹا کرنے اور ان کی سربراہی کرتے اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا۔
ان کی تلواریں میرا قیمہ بنانے لگیں اور یہ میرے ہاتھوں کے زخم ان ہی واروں کا شاخسانہ ہے۔ یہ زخم تو کم ہیں، اس سے کہیں زیادہ میرے بدن پر ہیں۔‘‘
یہ کہہ کر اس نے ہمیں اپنا اوپری جسم دکھایا، نہایت بھیانک منظر تھا، ایسا جسم ہم نے کسی انسان کا نہ دیکھا تھا۔ پھر کہنے لگا کہ:
’’لیکن ابھی میری موت کا وقت نہیں آیا تھا۔ وہ مجھے لاشوں کے درمیان مردہ سمجھ کر چھوڑ گئے۔ مجھے اپنی موت کا یقین ہوگیا تھا، کیوں کہ میری حالت بہت خستہ تھی۔ وہ اونٹ، تمام سازو سامان اور زندہ بچ جانے والوں کو قیدی بنا کر لے گئے۔ کچھ دیر بعد جب مجھے ہوش آیا اور میں نے اپنے جسم میں کچھ طاقت کی رمق محسوس کی تو مجھے پیاس کا احساس ہوا، لیکن میرے اندر اتنی بھی طاقت نہیں تھی کہ اٹھ کر قافلے والوں کا کوئی گرا پڑا مشکیزہ یا پانی کا برتن ڈھونڈ کر اپنی پیاس بجھاتا، لیکن مرتا کیا نہ کرتا، ہمت کر کے کھڑا ہوگیا، مجھے کوئی برتن نظر نہیں آیا۔
میں نے اپنے آپ کو لاشوں اور ان زخمیوں کے درمیان پایا جن کی سانسیں اکھڑ رہی تھیں۔ ان کی کرب آمیز سسکیوں نے میرے حوصلے مزید پست کردئیے۔ چناں چہ مجھے یقین ہوگیا کہ میں بھی بس چند لمحوں کا مہمان ہوں اور میں بھی چل بسوں گا، مگر ہوتا وہی ہے جو منظور خدا ہوتا ہے۔
میں نے سوچا کہ شاید سورج کے نکلنے تک میں زندہ رہ پاؤں۔ میںگھسٹتا گھسٹتا کسی درخت یا کجاوے کو ڈھونڈنے لگا کہ سورج نکل آنے پر اس کی روشنی میں جان دے سکوں۔
اچانک کسی چیز پر لڑ کھڑا کر گر پڑا، اندھیرے میں مجھے کچھ اندازہ نہ ہوسکا، لمبائی میں اس پر اوندھے منہ گر گیا، مگر میری حیرت کی انتہا نہ رہی کہ وہی چیز مجھے لے کر کھڑی ہوگئی، میں نے اس کی گردن میں اپنی بانہیں ڈال دیں۔ میں اسے آس پاس کے دیہات کا کوئی آدمی سمجھ رہا تھا، لیکن وہ انسان نہیں ’’شیر‘‘ تھا۔ اس بات کا اندازہ ہوتے ہی رہے سہے اوسان بھی خطا ہوگئے۔
اب میں بڑی مشکل میں پھنس گیا کہ اگر خود کو نیچے گراتا ہوں تو یہ مجھے چیر پھاڑ ڈالے گا۔ میں نے اپنے ہاتھ مضبوطی سے اس کی گردن میں جمادئیے اور اپنے پیٹ کو اس کی پیٹھ سے ملا کر چپک کر لیٹ گیا اور اپنی ٹانگیں اس کے پہلوؤں پر رکھ دیں، اس وقت تک میرے جسم سے خون بہہ رہا تھا، لیکن خوف کی شدت سے اب میرا خون منجمد ہوگیا اور بہنا بند ہوگیا۔
جب کہ شیر کے جسم کے نرم و گداز بالوں نے میرے رستے وجود کے لیے پھائے کا کام سرانجام دیا اور زخموں کے دہانوں کو بند کردیا اور اس پر مزید یہ کہ مجھ پر جتنا شیر کا خوف طاری تھا اس سے کہیں زیادہ شیر پر میرا خوف سوار تھا۔ وہ مجھے لے کر ایسے دوڑ رہا تھا جیسے گھوڑا ماہر گھڑسوار کو لے کر دوڑتا ہے۔ اس کے تیز بھاگنے کی وجہ سے میری روح تڑپ رہی تھی اور یوں محسوس ہورہا تھا کہ ابھی سارا جسم چورہ چورہ ہوجائے گا۔ میں نے سوچا بس ابھی تھوڑی ہی دیر میں یہ مجھے اپنی کچھار میں لے جاکر اوندھے منہ پٹخ دے گا اور میرے خون اور گوشت سے سیراب ہوجائے گا۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭