خلاصۂ تفسیر
صغیرہ گناہوں میں بھی یہ شرط ہے کہ ان کی عادت نہ ڈال لے اور ان پر اصرار نہ کرے، کبھی اتفاقی طور پر ہو جائے ورنہ اصرار اور عادت سے صغیر گناہ بھی کبیرہ ہو جاتا ہے اور استثناء کا یہ مطلب نہیں کہ صغائر کی اجازت ہے اور کبائر سے اجتناب کی شرط کا یہ مطلب ہے کہ محسنین کو ان کے نیک عمل کی اچھی جزا ملنا کبائر سے اجتناب پر موقوف ہے، کیونکہ مرتکب کبائر بھی جو حسنہ کرے گا اس کی جزا پائے گا، جس پر عنوان احسنوا دلالت کرتا ہے، خوب سمجھ لو اور اوپر جو بدکاروں کو سزا دینے کا بیان آیا، اس سے گناہ گاروں کو ناامید کرنے کا وہم ہوسکتا ہے، جس کا اثر یہ ہوتا کہ ایمان و توبہ سے ہمت ہار دیں اور محسنین کو جرائے حسنہ دینے کے وعدہ سے ان کے عجب و غرور میں مبتلا ہونے کا ایہام اور خطرہ تھا، آگے ان دونوں ایہاموں کو رد کیا گیا ہے) بلاشبہ آپ کے رب کی مغفرت بڑی وسیع ہے (گناہ گاروں کو تدارک گناہ سے ہمت نہ ہارنی چاہئے، وہ اگر چاہے تو بجز کفر و شرک کے اور سیئات کو محض فضل سے معاف کر دیتا ہے، تو تدارک سے کیوں معاف نہ کرے گا اور اسی طرح محسنین کو عجب اور فخر نہ کرنا چاہئے، کیونکہ حسنات میں بعض اوقات ایسے مخفی نقائص مل جاتے ہیں، جس کے سبب وہ قابل قبول نہیں رہتے اور عامل کو اس طرف التفات نہ ہونے سے ان کی اطلاع بھی نہیں ہوتی اور حق تعالیٰ کو تو علم ہوتا ہے، جب وہ حسنہ مقبول نہیں تو ان کا کرنے والا محسن اور محبوب نہیں، پھر عجب و غرور کیسا اور یہ بات کہ تمہاری کسی حالت کی خود تم کو اطلاع نہ ہو اور حق تعالیٰ کو اطلاع ہو، یہ کوئی تعجب کی بات نہیں ہے، بلکہ ابتدا ہی سے اس کا وقوع ہو رہا ہے، چنانچہ) وہ تم کو (اور تمہارے احوال کو اس وقت سے) خوب جانتا ہے، جب تم کو (یعنی تمہارے جد امجد آدم (علیہ السلام) کو) زمین (کی خاک) سے پیدا کیا تھا (جن کے ضمن میں بواسطہ تم بھی مٹی سے پیدا ہوئے) اور جب تم اپنی ماؤں کے پیٹ میں بچے تھے (اور ان دونوں حالتوں میں تم کو خود اپنا کوئی علم نہ تھا اور ہم کو علم تھا، پس اسی طرح اب بھی تمہارا خود اپنے سے ناواقف ہونا اور ہمارا عالم و واقف ہونا کوئی تعجب کی بات نہیں، جب یہ بات ہے) تو تم اپنے کو مقدس مت سمجھا کرو (کیونکہ) تقویٰ والوں کو وہی خوب جانتا ہے (کہ فلاں متقی ہے، فلاں نہیں، گو صورۃً افعال تقویٰ کے دونوں سے صادر ہوتے ہوں)۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭