محمد بن اسحاقؒ کی متعدد روایتوں میں یہ واقعہ اس طرح بیان ہوا ہے کہ جب یہ قافلہ بحیرا راہب کی خانقاہ کے قریب پہنچا تو بحیرا نے دیکھا کہ اس میں حضور اقدسؐ پر ایک بادل سایہ کئے ہوئے ہے اور درخت کی شاخیں بھی آپؐ پر جھک گئی ہیں۔ یہ دیکھ کر بحیرا کو جستجو پیدا ہوئی اور اس نے قافلے والوں کو دعوت دی کہ میں نے آپ کے لئے کھانا تیار کیا ہے، اس لئے آپ سب لوگ میرے پاس کھانے کے لئے تشریف لائیں۔
بحیرا کی دعوت پر سب قافلے والے آگئے، لیکن حضور اقدسؐ تشریف نہ لائے۔ بحیرا نے لوگوں سے پوچھا کہ کیا آپ تمام ساتھی آگئے ہیں؟ لوگوں نے کہا کہ سب آگئے ہیں بس ایک کمسن لڑکا ہے، جو کجاوے میں رہ گیا ہے۔ بحیرا نے اصرار کرکے آپؐ کو بھی بلایا اور آپؐ سے بہت سے سوالات کئے اور آپؐ کے مبارک کندھے پر مہر نبوت دیکھی۔
پھر ابو طالب سے پوچھا کہ اس لڑکے کا آپ سے کیا رشتہ ہے؟ ابو طالب نے کہا کہ یہ میرے بیٹے ہیں۔ بحیرا نے (سابقہ آسمانی کتابوں کی روشنی میں) کہا کہ یہ آپ کے بیٹے نہیں ہیں، ان کے والد زندہ نہیں ہوسکتے۔ تب ابو طالب نے بتایا کہ یہ میرے بھتیجے ہیں اور ان کے والد فوت ہوچکے ہیں۔ اس پر بحیرا نے انہیں مشورہ دیا کہ آپ انہیں واپس لے جائیں اور یہودیوں سے ان کی حفاظت کریں۔ چنانچہ ابو طالب خود آپ کو واپس لے آئے۔
بہرحال! واقعے کی جزوی تفصیلات میں تو روایتیں مختلف ہیں، لیکن اتنی بات پر تمام روایتوں کا اتفاق ہے کہ حضور اقدسؐ نے اس سفر میں بحیرا راہب کی خانقاہ کے قریب ایک درخت کے نیچے قیام فرمایا تھا اور درخت کی شاخیں آپؐ پر جھک گئی تھیں اور اس کے علاوہ بھی بحیرا نے آپ میں نبوت کی علامتیں دیکھی تھیں۔ جس کی بنا پر اس نے قافلے والوں کی دعوت کی اور حضور اقدسؐ کو خاتم الانبیاء کے طور پر پہچان کر ابو طالب کو مشورہ دیا تھا کہ انہیں واپس بھیج دیں۔ واقعہ یہ ہے کہ حضور اکرمؐ کے آخری پیغمبر کے طور پر تشریف لانے کی خبر تورات اور انجیل میں واضح طور پر دی گئی تھی۔ جن میں سے بعض آج بھی متعدد تحریفات کے باوجود بائبل میں موجود ہیں۔ جن کا مصداق حضور اکرمؐ کے سوا کوئی اور نہیں ہوسکتا۔
حضرت مولانا رحمت اللہ صاحب کیرانویؒ نے اپنی کتاب ’’اظہار الحق‘‘ میں ان کا مفصل ذکر فرمایا ہے، جس کا اردو ترجمہ راقم (مفتی تقی عثمانی) کی شرح و تحقیق کے ساتھ ’’بائبل سے قرآن تک‘‘ کے نام سے شائع ہوا ہے۔ نیز ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ان پیش گوئیوں کے علاوہ حضور اقدسؐ کی کچھ علامتیں مختلف پیغمبروں نے زبانی بتا رکھی ہوں گی، جو سینہ بہ سینہ روایتوں کی شکل میں بھی اہل کتاب کے پاس موجود تھیں۔
یہ بات بھی ثابت ہے کہ حضور اکرمؐ کی تشریف آوری سے پہلے اہل کتاب نبی آخرالزماںؐ کی آمد کے انتظار میں تھے۔ چنانچہ وہ بت پرستوں سے مقابلے کے وقت حق تعالیٰ سے دعا کرتے تھے کہ انہیں جلدی بھیج دیجیے جیساکہ قرآن کریم نے سورۃ بقرہ کی آیت 89 میں بیان فرمایا ہے۔ ان حالات میں بحیرا نے حضور اقدسؐ میں وہ علامات محسوس کرکے یہ یقین کرلیا کہ آپؐ ہی نبی آخر الزماں ہیں۔ اس لئے یہ مشورہ دیا۔
اب یہ جگہ کون سی تھی، جہاں یہ درخت واقع تھا؟ اس بارے میں شہزادہ غازی کا کہنا یہ ہے کہ انہیں بادشاہ کی طرف سے یہ کام سونپا گیا تھا کہ وہ اردن میں پائے جانے والی ان تاریخی یادگاروں کی تحقیق کریں، جن کا تعلق حضور اکرمؐ یا آپؐ کے صحابہ کرامؓ سے ہو۔ چنانچہ انہوں نے اس سلسلہ میں ان وثائق کی چھان بین شروع کی، جو حکومت کے پاس محفوظ تھے۔ ان وثائق میں جو غالباً خلافت عثمانیہ کے دور سے محفوظ چلے آتے تھے۔ انہیں اس درخت کا ذکر ملا، جس کے نیچے حضور اقدسؐ نے قیام فرمایا تھا اور یہ کہ وہ درخت ابھی تک زندہ ہے۔(جاری ہے)
٭٭٭٭٭