اٹھارہ ذوالحجہ سن 35 ہجری کو اسلامی تاریخ کا ایک اندوہناک سانحہ رونما ہوا۔ اسی سانحے کی وجہ سے ہی مسلمانوں میں پھوٹ پڑی، ان کی گروہ بندی شروع ہوئی اور جنگ ِ جمل، جنگ صفین، حضرت علیؓ کی شہادت، مکہ پر فوج کشی اور واقعہ کربلا جیسے المیے پیش آئے اور مسلمانوں کی تلواریں اپنے بھائیوں کے خون سے آلودہ ہوئیں۔ وہ مسلمان جو اخوت، مساوات، عدل و انصاف کی عظیم اور لازوال مثالیں قائم کر کے قیصر و کسریٰ جیسی بڑی ریاستوں کو سرنگوں کر چکے تھے، وہ مسلمان جو اپنے دین کی سر بلندی کی خاطر اپنے مال و جان و اولاد کی پروا نہ کرتے تھے، ان میں فرقہ بندیاں پیدا ہوئیں، جو آج تک ختم نہ ہو سکیں۔ اس روز نبی آخر الزماںؐ کے مقدس شہر مدینہ طیبہ میں آپؐ کے دہرے داماد حضرت عثمان ذوالنورینؓ کو بلوائیوں نے انتہائی بے دردی سے شہید کیا۔
آپؓ کا نام مبارک عثمان تھا اور آپؓ کے والد محترم کا نام عفان تھا، چونکہ حضور اکرمؐ کی دو نور نظر حضرت رقیہؓ اور حضرت ام کلثومؓ آپؓ کے نکاح میں یکے بعد دیگرے آئیں، اسی وجہ سے آپؓ کو ذوالنورین کا لقب ملا۔ آپؓ کا سلسلہ نسب پانچویں پشت میں حضور اکرمؐ سے جا ملتا ہے۔ (تاریخ الخلفاء، علامہ جلال الدین سیوطی)
حضرت عثمانؓ عام الفیل کے چھ سال بعد یعنی 577ء میں طائف میں پیدا ہوئے۔ گویا کہ آپؓ عمر میں حضور اکرمؐ سے 6 برس چھوٹے تھے۔ آپؓ کا شمار سابقین، اولین میں ہوتا ہے۔ آپؓ حضرت ابوبکر صدیقؓ کی رہنمائی اور کوشش سے حلقہ بگوش اسلام ہوئے۔ اسلام لانے میں آپؓ کا شمار پانچویں نمبر پر ہوتا ہے۔ جب آپؓ کے مسلمان ہونے کی خبر آپؓ کے چچا ابو العاص کو ہوئی تو وہ آگ بگولہ ہوگئے اور آپؓ کے پاؤں میں زنجیریں ڈال کے آپؓ کو قید کردیا اور یہ مطالبہ کیا کہ جب تک اس مذہب کو نہیں چھوڑو گے، قید سے خلاصی نہیں ملے گی۔ لیکن اسلام کی خوبیاں ایسی ہیں کہ جو ایک مرتبہ بصیرت کے ساتھ ان کو دیکھ لے تو ہر طرح کا سکون اورآرام اس پر قربان کرنے کے لئے تیار ہو جاتا ہے۔ آپؓ نے فرمایا: اے چچا! اس خدا کی قسم، جس نے اپنی رحمت سے رسول کریمؐ کو ہم میں بھیجا ہے، اگر تم میرا سر بھی کاٹ دو گے اور میرے بدن کے ٹکڑے ٹکڑے بھی کردو تب بھی اسلام نہیں چھوڑں گا اور میرے بدن کے ہر ٹکڑے سے کلمہ شہادت کی آواز آئے گی۔ (جامع ترمذی جلد 2، صفحہ 567)
جس طرح حضرت علی المرتضیؓ حضور اکرمؐ کے داماد تھے، اسی طرح حضرت عثمانؓ بھی حضور کریمؐ کے دوہرے داماد تھے۔ چناچہ ہجرت سے قبل حضور اکرمؐ کی صاحبزادی حضرت رقیہؓ آپؓ کے نکاح میں آئیں اور سن دو ہجری میں حضرت رقیہؓ کے انتقال کے بعد حضور اکرمؐ نے اپنی دوسری بیٹی حضرت ام کلثومؓ بھی آپؓ کے نکاح میں دیدی اور نو ہجری میں جب حضرت ام کلثومؓ کا انتقال ہوا تو آپؐ نے فرمایا کہ اگر میری چالیس بیٹیاں ہوتیں تو میں عثمانؓ سے یکے بعد دیگرے ان کا نکاح کر دیتا، حتیٰ کہ ایک بھی نہ رہ جاتی۔ (یعنی باری باری سب کا نکاح کر دیتا)
چنانچہ علامہ سیوطیؒ نے تاریخ الخلفاء باب ذکر عثمانؓ میں لکھا ہے کہ علماء نے فرمایا ’’کہ اولاد آدمؑ میں کوئی شخص ایسا نہیں گزرا کہ جس کے نکاح میں کسی نبی کی دو بیٹیاں یکے بعد دیگرے آئیں ہوں، سوائے حضرت عثمانؓ کے اور اسی وجہ سے آپؓ ذوالنورین کہلائے۔‘‘ (تاریخ الخلفائ، سیوطی صفحہ 105طبع مجتبائی، دہلی باب ذکرعثمان بن عفان)
حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ روایت کرتے ہیں کہ ہم حضور اکرمؐ کے پاس بیٹھے تھے کہ آپؐ کے پاس باری باری صحابہ کرامؓ آرہے تھے، پھر ایک شخص نے دستک دی اور آنے کی اجازت مانگی، حضور کریمؐ نے مجھ سے فرمایا کہ اس کے لیے دروازہ کھولو اور اسے جنت کی بشارت دے دو۔ میں نے دیکھا کہ وہ عثمانؓ ہیں اور میں نے آپؓ کو اس بات کی خبر دی، جو حضور کریمؐ نے فرمائی تھی۔ (صحیح مسلم جلد 2 صفحہ 277)
حضرت عثمانؓ کی فضیلت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ حضور اکرمؐ نے فرمایا: ہر نبی کا جنت میں ایک خالص رفیق ہوتا ہے اور میرے رفیق وہاں عثمانؓ ہوں گے۔ (ابن ماجہ)
حضرت عائشہ صدیقہؓ فرماتی ہیں کہ ایک مرتبہ حضور اکرمؐ اپنے گھر میں لیٹے ہوئے تھے اور اپنی پنڈلیوں کو کھولے ہوئے تھے۔ حضرت ابو بکر صدیقؓ اور حضرت عمرؓ آپؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ آپؐ نے ان حضرات سے اسی حالت میں گفتگو فرمائی، پھر حضرت عثمانؓ آئے اور اندر آنے کی اجازت طلب کی تو آپؐ اٹھ کر بیٹھ گئے اور اپنا کپڑا ٹھیک کر لیا۔ جب سب حضرات چلے گئے تو میں (حضرت عائشہ صدیقہؓ) نے حضرت عثمان کیلئے اس امتیاز کی وجہ دریافت کی تو حضور اکرمؐ نے فرمایا ’’کیا میں اس شخص سے حیا نہ کروں، جس سے آسمان کے فرشتے بھی حیا کرتے ہیں؟‘‘ (جامع ترمذی)
وصی رسولؐ اسے کہتے ہیں، جسے حضور اکرمؐ نے شخصاً کسی خاص وصیت سے نوازا ہو، آنحضرتؐ نے حضرت عثمانؓ کو ایک وصیت کی، آپ نے اس کی وفا میں اپنی جان دی اور اس حکم سے سر مو تجاوز نہ کیا۔ حضرت عائشہ صدیقہؓ فرماتی ہیں کہ حضور اکرمؐ نے فرمایا: ’’اے عثمان! اگر خدا تعالیٰ تجھے کسی دن یہ حکومت عطاء فرمائے اور منافقین چاہیں کہ تم یہ قمیص اتار دو جو خدا نے تمہیں پہنائی تو تم ہر گز اسے نہ اتارنا۔ آپؐ نے یہ بات تین دفعہ فرمائی۔‘‘ (ترمذی)
جس طرح حضرت ابو بکر صدیقؓ کی مالی قوت اسلام میں لگی، دوسرے درجے میں حضرت عثمان غنیؓ اسلام کا سب سے بڑا مالی سرمایہ بنے، حضرت عثمانؓ اسلام پر اپنا مال خرچ کرنے میں سوائے حضرت ابو بکر صدیقؓ کے باقی سب صحابہ کرامؓ پر سبقت لے گئے۔ مدینہ کے مسلمانوں نے بیئر رومہ کا پانی انہی کی سبقت مالی سے پیا۔ آپؓ نے یہ کنواں خرید کر مسلمانوں کیلئے وقف کردیا۔ یہ کنواں آپؓ نے 35 ہزار درہم میں خریدا۔ حضور اکرمؐ نے ایک ملحقہ قطعہ زمین پر نظر ڈالی، حضرت عثمانؓ نے اس زمین کو خریدا اور مسجد میں شامل کردیا۔ اب ہر نمازی کی نماز میں حضرت عثمانؓ کا بھی حصہ ہوگیا۔ اس وقت آل سعود نے جہاں تک اس مسجد کو بڑھا دیا ہے، حضرت عثمانؓ ہر نمازی کی نماز میں برابر کے شریک ہیں، اس سے بڑا امت کا محسن کون ہو سکتا ہے۔ قیصر روم کے مقابلے میں ایک بڑی فوجی قوت کی ضرورت تھی، جنگ تبوک کی تیاری مسلمانوں کی پہلی بین الاقوامی تحریک تھی۔ حضرت عثمانؓ نے اس کیلئے ایک ہزار دینار نقد اور تین سو اونٹ مال تجارت سے لدے ہوئے حضور اکرم ﷺ کی خدمت میں پیش کر دیئے۔ حضور اکرمؐ نے فرمایا: ’’اب عثمانؓ پر کوئی بار نہ ہوگا، وہ جو کرے اس پر کوئی گرفت نہیں ہوگی۔‘‘ (جامع ترمذی ج 1 ،ص 211) یہ وہ آسمانی بشارت تھی جو اہل بدر کو اعملوا ما شئتم قد غفرت لکم کے الفاظ میں دی گئی تھی۔ آپؓ کا سب کچھ اسلام کے لئے وقف تھا۔ تاریخ نے جس کو ’’غنی‘‘ کہا، وہ زندگی کے آخر میں اس قدر بے بس تھا کہ اپنی حفاظت کیلئے خرچ سے محافظ دستہ نہ رکھ سکتا تھا اور تقویٰ کی شان یہ تھی کہ بیت المال کے خرچ سے اپنی جان کی حفاظت کرنا ناجائز جانا، یہاں تک کہ اپنی جان حضور اکرمؐ کے شوق ملاقات میں اس طرح جان آفرین کے سپرد کی۔ یہ وہ شان تقویٰ اور جذبہ انفاق ہے، جس نے حضرت عثمانؓ کو حضرت ابو بکرؓ کے بہت قریب کر دیا تھا۔
کامیاب خلافت: کامیاب خلافت وہی ہے، جو پورے عالم اسلام پر ایک ہی ہو، جس طرح حضور نبی کریمؐ پوری دنیا کیلئے ایک ہی پیغمبر خاتم تھے۔ دوسرے درجہ کی خلافت وہ ہے، جس میں پورے اسلامی قوانین کا نفاذ ہو، لیکن پورا رقبہ اسلامی ایک اقتدار کے ماتحت نہ ہو، جس طرح بنو عباس کی خلافت کا مرکز بیشک بغداد میں تھا، لیکن اس وقت اسپین میں اموی خلافت ہی قائم تھی اور اس کا تاریخی تسلسل پہلی اموی خلافت کے ساتھ ہی تھا۔ حضرت عثمانؓ کی خلافت اس حوالے سے بھی ایک کامیاب خلافت رہی کہ آپ ؓ کے خلاف جتنی بغاوتیں اٹھیں اور آپؓ کے گورنروں کے خلاف جتنی شکایات بھی آئیں، آپؓ کے مخالفین ایک چھوٹا سا خطہ یا کوئی صوبہ اور کوئی ملک اس خلافت سے جدا نہ کر سکے اور پوری سلطنت اسلامی ایک ہی نظام کے تحت رہی۔ شریعت محمدیؐ کا بنیادی قاعدہ ہے کہ خواتیم اعمال سند بنتے ہیں۔ حضرت عثمانؓ سے ایک مطالبہ یہ بھی ہوا کہ آپؓ بوڑھے ہو چکے ہیں، آپؓ کسی نوجوان کو موقع دیں اور خود خلافت سے دستبردار ہو جائیں۔ حضور اکرمؐ نے آپؓ سے فرمایا تھا کہ تم سے قمیض (خلافت) اتارنے کا مطالبہ کیا جائے گا، تم اسے مت اتارو۔ یہ خلافت کی قمیض تھی۔ آپؓ نے جان دینا گوارا کی، مگر یہ قمیض نہ اتاری اور خلافت سے دستبردار نہ ہوئے۔ آپؓ کی شہادت تک خلافت بھی قائم رہی۔
شہادت : حضرت عثمانؓ کو 18ذی الحجہ 35ھ کو مدینہ منورہ میں 40 دن کے محاصرے کے بعد اس حال میں شہید کیا گیا کہ 40 دن تک آپؓ بھوک اور پیاس کی حالت میں رہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ جب حضرت عثمانؓ پر بلوائیوں نے تلوار چلائی تو اس وقت آپؓ قرآن پاک کی تلاوت کر رہے تھے اور آپؓ کے خون کا پہلا قطرہ قرآن پاک کی آیت فسیکفیکھم اللّٰہ …پر گرا۔ اس طرح قرآن اور حضرت عثمانؓ کا تعلق زندگی کی آخری سانسوں تک قائم رہا۔ حضرت جبیر بن مطعمؓ نے آپؓ کی نماز جنازہ پڑھائی اور جنت البقیع میں آپؓ کی تدفین ہوئی۔ آپؓ کو حضرت حسن بن علیؓ نے قبر مبارک میں اتارا۔
٭٭٭٭٭