ابو واسع
دریائے راوی میں اُس وقت پانی کی روانی بہت ہوتی تھی۔ اس میں تیرنا آسان کام نہ تھا۔ لیکن اچھو کے پیچھے بھی موت تھی اور آگے بھی موت ہی دکھائی دے رہی تھی۔ آگے والی موت میں بچائو کی صورت تھی سو اس نے دریائے راوی میں چھلانگ لگا دی۔ پولیس والے حیران پریشان اسے دیکھتے رہے۔ اچھونے پل کے نیچے لگے پڑائو (پلر) کے سہارے خود کو سنبھال لیا۔ پولیس والے کچھ دیر اس کے آثار ڈھونڈنے کی کوشش کرتے رہے، بعد ازاں تیز پانی کا بہائو دیکھ کر واپس چل پڑے کہ ایسے پانی میںکوئی ماہر تیراک بھی رقم کا توڑا لے کر نہیں تیر سکتا۔ اچھو نے اس وقت رقم کے توڑے سے وزن کم کرنے کے لیے آدھی رقم دریا برد کر دی۔ باقی توڑے کو دانتوں میں دبا کر پل کے نیچے پانی میں چھپا رہا۔ جب پولیس چلی گئی تو دو تین گھنٹوں بعد اچھو پانی سے باہر نکلا اور شکرگڑھ کے جنگل کی طرف جا نکلا۔ شکرگڑھ جنگل میں بھی باڑلا گروپ کی پناہ گاہ تھی۔ اس دوران گھر اور گائوں والوں نے یقین کر لیا تھا کہ اچھو دریا میںڈوب گیا ہے۔ اس کی لاش کی تلاش شروع کر دی گئی۔ بیس روز تک لاش تلاش کی جاری رہی، لیکن اچھو کی کسی کو خبر نہ ملی۔ اکیسویں روز باڑلا گروپ کے ایک بندے نے اچھو کی والدہ کو گھر میں آکر اطلاع دی کہ اچھو زندہ ہے اور شکر گڑھ میں ہے۔ لیکن اچھو کی ماں کو یقین نہیں آرہا تھا۔ چنانچہ اس نے کہا کہ مجھے اچھو سے ملائو یا اچھو سے کہو کہ وہ گھر آئے۔ چونکہ بینک ڈکیتی کی واردات تازہ تھی، اس لیے اچھو گائوں نہیں آسکتا تھا۔ طے ہوا کہ اچھو کی ماںکو شکر گڑھ لے جایا جائے۔ لیکن اچھو نے یہ مناسب نہ جانا اور خود ہی اپنے گائوں جانے کی ٹھان لی، تاکہ ماں کو اطمینان نصیب ہو۔ اسی رات وہ کچھ دیر کے لیے ماں سے ملا اور پھر فوراً نکل گیا۔
ایک اور ذرائع نے ایک بازار میں باڑلا گروپ کے ڈاکے کی تفصیل بتاتے ہوئے کہا کہ ’’اچھو اور چھیدی اب اشتہاری تھے۔ ڈاکہ اور بھتہ تو وصول کر ہی رہے تھے، لیکن انہوں نے اشتہاری دور میں لاہور کی ایک سنار مارکیٹ جو ’سوہا بازار‘ میں واقع تھی، اسے بھی لوٹا۔ اس مارکیٹ میں انتہائی قیمتی سامان فروخت ہوتا تھا۔ زرگروں کی دکانیں بھی بہت زیادہ تھیں۔ اس کے علاوہ اعلیٰ قسم کی گھڑیاں بھی وہاں فروخت ہوتی تھیں۔ جن میں اس وقت کی شہرت یافتہ گھڑی راڈو صرف اسی مارکیٹ سے ملا کرتی تھی۔ باڑلا گروپ میں اس وقت چالیس کے قریب لوگ تھے، جو اس سنار مارکیٹ میں پہنچے اور انہوں نے مارکیٹ کے دونوں اطراف کھڑے ہو کر راستہ بند کر کے ہوائی فائرنگ شروع کردی۔ ان کے ساتھ اس وقت تین ایسے اشتہاری تھے، جو پولیس کو انتہائی مطلوب تھے۔ ان میں معروف نام سبو لیلا بھی تھا، جو گوجرانوالہ کے نزدیک لیلا گائوں کا رہائشی تھا۔ سبو لیلا کی بھی اچھو اور چھیدی کے ساتھ دوستی ایک انتقام پر مبنی ہے، جس کا ذکر بعد میں کیا جائے گا۔ سوہا بازار سے تمام سونا، گھڑیاں اور قیمتی پتھر (جواہرات) ان لوگوں نے لوٹ لیے۔ اسّی کی دہائی میں اس وقت جو سامان لوٹا گیا تھا، اس کی مالیت کا اندازہ چھ سے سات کروڑروپے لگایا گیا تھا، اور یہ خبر بی بی سی پر بھی نشر ہوئی تھی اور اس نے تصدیق کی تھی کہ سامان کی مالیت اتنی ہی ہے۔ باڑلا گروپ کے لوگوں نے تمام زرگروں کی دکانوں پر رکھا سونا اٹھا لیا تھا۔ حتیٰ کہ جو ان کے گوداموں یا دکانوں سے متصل کارخانے تھے، ان سے بھی سونا اور نگینے نکال لئے تھے۔ اس ڈاکے نے لاہور بھر کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ پولیس جگہ جگہ ان کی تلاش میں پھر رہی تھی۔ لیکن یہ جنگلوں میں پناہ گزین تھے۔ لوٹا ہوا تمام مال دونوں بھائیوں نے اپنی پھوپھی کے گھر چھپا دیا تھا۔ بعد میں جب دونوں قتل ہوگئے تو ان کے قتل کے پندرہ برس بعد اسی پھوپھی نے صرف سونا بیچ کر پانچ مربع زمین روڈ کے ساتھ خریدی، جس کی لاگت پانچ کروڑروپے بنی تھی۔ یہ صرف اس سونے کی قیمت تھی۔ باقی جو سامان تھا وہ اس میں شامل نہیں تھا‘‘۔
اس سے پہلے کہ یونس پچر کے قتل کے بارے میں بتایا جائے، اچھو اور چھیدی کی ذاتی زندگی کے حوالے سے جو واقعات شہرت رکھتے ہیں، ان میں سب سے معروف واقعہ اس وقت کی ایک معروف اداکارہ اور ڈانسر (نام بوجوہ نہیں لکھا جارہا) کے دو بار اغوا کا ہے۔ یہ اغوا کوئی رقم کی غرض سے نہ تھا، بلکہ صرف اس لیے اسے اٹھا کر لاتے تھے کہ اس کا مجرہ دیکھتے اور لطف اندوز ہوتے تھے۔ یہ مجرہ وہ صفدر ڈیال کے ڈیرے پر منعقد کرتے تھے۔ بعد میں اس اداکارہ نے صفدر ڈیال سے اس بات کی شکایت کی کہ اچھو اور چھیدی مجھے گھر سے اٹھا کر لے جاتے ہیں، انہیں منع کیا جائے۔ اس پر صفدر ڈیال نے انہیں منع کر دیا کہ ایسا نہ کرو۔ بعدا زاں اس اداکارہ کے ساتھ دونوں کے تعلقات بن گئے اور وہ خود بخوشی ان کے ہاں آنے جانے لگی۔ جب اچھو اور چھیدی قتل ہوئے تو ان کی گن کے بٹ پر اس اداکارہ کی تصویر لگی ہوئی تھی۔ اس کے علاوہ ایک اور واقعہ جو بہت شہرت رکھتا ہے، وہ ایک بوڑھی عورت رقیہ بی بی کا ہے۔ چھیدی ایک دن شیخ روحیل کے گھر موجود تھا۔ پولیس کو مخبری ہوئی کی چھیدی شیخ روحیل کے گھر میں موجود ہے۔ پولیس کا چھاپہ پڑا تو شیخ کی بیوی نے پرانی کرولا گاڑی کی ڈگی میں چھیدی کو چھپادیا۔ ساتھ ایک کلاشنکوف رکھ دی اور شیخ روحیل اصغر خود بیوی کے ہمراہ کرولا گاڑی پر نکل کھڑا ہوا۔ چنانچہ ان لوگوں نے چھیدی کو وہاں شاہدرہ پار کرا دیا تھا۔ شاہدرہ گجروں کا آماجگاہ تھی، لیکن وہ جتنے گجر تھے سب اچھو اور چھیدی کو بھتہ دیتے تھے۔ وہاں وہ گجروں کے ایک گھر میں ٹھہر گیا۔ وہاں رقیہ بی بی نامی مائی کو معلوم ہوا کہ چھیدی آیا ہوا ہے تو وہ اس کے پاس آئی اور کہنے لگی کہ میری چار بیٹیاں ہیں اور میں نے ان کی شادی کرنی ہے، میرے پاس رقم نہیں ہے۔ چھیدی نے اس سے پوچھا کہ کس علاقے میں رہتی ہو۔ اس نے علاقہ بتایا تو وہاں کے چوہدری کا نام لے کر چھیدی نے کہا کہ اسے جاکر میرا پیغام دو کہ تمیں ایک لاکھ روپیہ دے۔ وہ لاکھ روپیہ لے کر تم اپنی چاروں بیٹیوں کا بیاہ کرلینا۔ وہ راجپوتوں کے گائوں پکھیالہ کی رہائشی تھی۔ وہاں وہ اس بڑے چوہدری کے پاس پہنچی جو اپنے اینٹوں کے بھٹے پر موجود تھا۔ اسے چھیدی کا پیغام دیا، کہ تمہاری زمین جائیداد بہت ہے، مجھے لاکھ روپیہ دے دو۔ تو اس نے سمجھا کہ یہ بڑھیا اسے گائودی بنا رہی ہے۔ چنانچہ اس نے رقیہ کو بے عزت کرکے وہاںسے بھگا دیا اور کہا کہ چھیدی نے تمہیں بھیجا ہے تو جائو اور چھیدی کو کہو کہ وہ تمہارے ساتھ آئے۔ اسے ساتھ لے کر آئو اور پیسے لے جائو۔ رقیہ بی بی ناکام واپس آگئی۔ لیکن اب اس کا چھیدی سے ملنا مشکل تھا۔ چنانچہ وہ چھیدی کے گھر آگئی۔ وہاں بھی اسے چھید ی نہ ملا۔ رقیہ بی بی نے ہمت نہ ہاری اور آخر ایک روز اس کی موجودگی میں چھیدی گھر آ پہنچا۔ چھیدی کو کہنے لگی کہ تمہارا نام لیا تو اس نے میرے ساتھ یہ سلوک کیا۔ تم نے مجھے پیسے نہیں دینے تو بے عزت تو نہ کراتے۔ چھیدی نے اسی وقت رقیہ بی بی کو ساتھ لیا اور چوہدری کے بھٹے پر جا پہنچا۔ وہ چوہدری اپنے بھٹے پر موجود تھا۔ چھیدی نے اس کے بھٹے پر موجود ساٹھ ستر ہزار روپیہ اٹھاکر رقیہ کو دیا اور چوہدری کو ساتھ لے کر شاہدرہ بازار آگیا اور عین بازار میں اسے مرغا بنا دیا۔ رقیہ بی بی اچھو اور چھیدی کے قتل کے بعد بھی مستقل ان کے گھر آتی رہی اور چھیدی کو یاد کرکے روتی۔ اسی گائوں پکھیالہ میں اکرم اور جھیڈو نامی دو بھائی تھے۔ جن کے باپ کے ساتھ اچھو اور چھیدی کے باپ کا تعلق تھا۔ چنانچہ یہ دونوں بھائی بھی ان کے ہاںآتے جاتے تھے۔ ان کی ایک بہن نجو تھی، جس کے ساتھ چھیدی کی دوستی تھی۔ وہ بہت دلیر عورت تھی۔ چھیدی کے اس سے اس قدر مراسم تھے کہ جب اچھو اور چھیدی پر برا وقت آیا تو اس نے اس کے گھر میں کبھی راشن کی کمی نہ ہونے دی۔ خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ نجو کے بھائی قتل ہو گئے اور نجو اکیلی رہ گئی۔ چنانچہ چھیدی اور اچھو نے نجو کے بھائیوں کے قاتلوں کو جاکر قتل کیا۔ یہی وجہ تھی کہ نجو اچھو اور چھیدی پر جان چھڑکتی تھی۔ جب تک اچھو اور چھیدی زندہ رہے نجو بے خوف و خطر پھرتی رہی۔ اس کی دلیری کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ وہ اپنی کمر کے ساتھ ہولسٹر میں پستول رکھتی تھی۔ جب اچھو اور چھیدی قتل ہوئے تو بعد ازاں نجو کے دشمنوں کے لیے میدان صاف ہوگیا اور انہوں نے ایک روز نجو کو بھی قتل کر دیا۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭