سرفروش

عباس ثاقب
مجھے اصل تعجب یہ تھا کہ سچن بھنڈاری نے گھر کے داخلی دروازے کی چابی کی گم شدگی پر قطعاً پریشانی کا اظہار نہیں کیا، بلکہ سرے سے ذکر ہی نہیں کیا۔ جلد ہی مجھے اس بے فکری کی وجہ معلوم ہوگئی۔ اس نے دروازے کے دائیں طرف رکھا پھولوں کا ایک گملا ہٹایا اور اس کے نیچے سے چابی نکال کر دروازے کی طرف بڑھا۔ میرے دیکھتے ہی دیکھتے وہ دروازہ کھول کر اندر داخل ہوگیا اور اسے اندر سے بندکر لیا۔ کچھ ہی دیر بعد دروازے پر نصب بلب بھی بجھ گیا۔
یہ اس علاقے کے باشندوں کے طرزِ زندگی کا حصہ تھا یا سرد موسم کا اثر کہ اس دوران وہاں ہر طرف ہُو کا سا عالم طاری تھا اور کوئی گلی کوچوں میں دکھائی نہیں دیا تھا۔ یہ صورتِ حال میرے لیے انتہائی سازگار تھی۔ میں نے چند لمحے انتظار کیا اور پھر اپنے رکشے کی طرف آگیا۔ میں اسے اسٹارٹ کیے بغیر دھکیلتا ہوا لگ بھگ پچاس گز دور واقع ایک سرکاری باغیچے کی طرف لے گیا اور اسے ایک گھنے درخت کے اندھیرے سائے میں کھڑا کردیا اور پھر دیوار کے ساتھ ساتھ چلتے ہوئے واپس سچن کے کوارٹر کے پاس پہنچا۔ چند لمحوں بعد میں دیوار پھلانگ کر کوارٹر کے مضبوط چوبی داخلی دروازے کے پاس پہنچ چکا تھا۔
میں نے کان لگاکر اندر کی سن گن لینے کی کوشش کی۔ مجھے کوئی آواز سنائی نہیں دی۔ میں نے سچن سے ہتھیایا ہوا چابیوں کا گچھا نکالا اور ایک چابی ہضمی قفل میں داخل کر کے قسمت آزمائی کی۔ میری پہلی ہی کوشش کامیاب رہی۔ چابی باآسانی اور بے آواز گھوم گئی اور دروازے کا قفل کھل گیا۔ میں نے دھیرے سے تھوڑا سا دروازہ کھولا اور درز سے اندر جھانکا۔ بلب کی دھیمی روشنی میں سامنے ایک نشست گاہ دکھائی دے رہی تھی، جسے خوب صورت آرائشی اشیا اور شوخ پھولوں والے پردوں سے آراستہ کیا گیا تھا۔ درمیان میں چرمی پوشش والے صوفے اور ان کے سامنے ایک چوبی میز بھی موجود تھی۔ البتہ مجھے وہاں کوئی دکھائی نہیں دیا۔
میں ہوا کے خاموش جھونکے کی طرح اندر داخل ہوا اور اپنے پیچھے دروازہ بے آواز بند کر کے دبے قدموں سے آگے بڑھا۔ میری آنکھیں مسلسل گردش میں تھیں۔ میں چند قدم آگے بڑھ کر نزدیکی کھڑکی اور اس پر پڑے پردے کے درمیان چھپ گیا۔ چند ہی سیکنڈ کے جائزے سے میں نے اندازہ لگالیا کہ پہلی منزل پر صرف نشست گاہ، طعام گاہ اور باورچی خانہ وغیرہ ہیں۔ خواب گاہیں کوارٹر کی دوسری منزل پر واقع ہیں، جہاں لے جانے والا چوبی زینہ سامنے ہی دکھائی دے رہا تھا۔
میں نے ایک بار پھر اپنی قوتِ سماعت پر زور ڈالتے ہوئے اوپر کے حالات کی سن گن لینے کی کوشش کی، لیکن کوئی بھی آواز سننے میں ناکام رہا۔ لگتا تھا کہ سچن گھر میں گھستے ہی سیدھا بستر پر جا گرا تھا اور انٹا غفیل ہو گیا تھا۔ اس کی بیوی تو پہلے ہی گولی کھاکر بے سدھ پڑی ہوگی۔
میں بے آواز لیکن تیز تیز قدموں سے زینے چڑھنے لگا۔ میری آنکھیں اور کان پوری حساسیت سے کام کر رہے تھے۔ زینے کے آخری حصے پر پہنچ کر میں نے ٹھہر کر ایک بار پھر سن گن لی، لیکن وہاں مکمل سناٹا تھا۔ میرے سامنے دو اطراف میں دو بڑے دروازے، جبکہ تیسری طرف ایک چھوٹا دروازہ دکھائی دے رہا تھا۔ بظاہر وہ تینوں ہی مقفل نظر آرہے تھے۔ میں نے اپنے طور پر فرض کرلیا کہ گچھے میں ان کمروں کی چابیاں ہوں گی، لیکن مجھے اب یہ فیصلہ کرنا تھا کہ پہلے کون سے دروازے پر قسمت آزمائی کی جائے۔
میں بے آواز قدموں سے دائیں طرف واقع کمرے کے دروازے کی طرف بڑھا اور کان لگاکر اندر کی سن گن لینے کی کوشش کی۔ وہاں مکمل سناٹا تھا۔ میں نے چابی کے گچھے میں سے اس کمرے کی چابی کا اندازہ لگاتے ہوئے بے خیالی میں دروازے کا لٹو گھمایا تو وہ باآسانی گھوم گیا اور دروازہ تھوڑا ساکھل گیا۔ میں نے دروازے کی درز سے اندر جھانکا۔ دھیمی روشنی میں سامنے ہی ایک بڑی سی مسہری پر ایک تیس بتیس سال کی سانولی رنگت لیکن تیکھے نقوش والی عورت محو خواب نظر آئی۔ رضائی میں ہونے کی وجہ سے اس کی جسمانی ساخت کا درست اندازہ لگانا مشکل تھا، تاہم وہ بظاہر خاصی طویل قامت لگ رہی تھی۔
میں اندازہ لگا سکتا تھا کہ وہ سچن کی بیوی ہوگی۔ لیکن اس وقت اس کا شوہر اس کے پاس موجود نہیں تھا۔ میں نے اللہ کا نام لے کر کمرے میں قدم رکھا تو سچن کی وہاں عدم موجودگی کی وجہ بھی سمجھ آگئی ۔ پانی گرنے کی آواز بتا رہی تھی کہ وہ غسل خانے میں ہے۔ وہ کسی بھی وقت باہر آسکتا تھا، چنانچہ میں نے کمرے میں تیزی سے نظریں دوڑاکر اپنے لیے چھپنے کی جگہ تلاش کرنا چاہی۔ ایک بار پھر بھاری پردے ہی مجھے مناسب ٹھکانا لگے۔ میں جلدی سے مسہری کے سرہانے سچن کی بیوی والی سمت ایک بڑی سی کھڑکی پر پڑے مخملیں پردے کے پیچھے جا چھپا۔
کئی منٹ انتظار کے باوجود سچن غسل خانے سے برآمد نہ ہوا تو میں نے اپنے ذہن میں فوری آنے والی ایک تجویز پر عمل کر ڈالا۔ میں نے مسہری کے پہلو میں رکھی تپائی پر موجود پانی کے جگ سے ایک گلاس بھرا اور اسے نیند میں گم عورت کے تکیے کے پاس طرح رکھ دیا کہ لحاف میں ذرا سی جنبش ہوتے ہی گلاس الٹ جاتا اور اس کا پانی سیدھا اس عورت کے چہرے پر جا گرتا۔ مجھے یقین تھا کہ میری یہ کارروائی حسبِ منشا حد تک کارگر ثابت ہوتی۔ مطمئن ہوکر میں ایک بار پھر پردے میں جا چھپا۔
بالآخر میں نے غسل خانے کا دروازہ کھلنے کی آواز سنی۔ پردے میں سے جھانکا تو وہ شب خوابی کے ریشمی لبادے میں ملبوس نظر آیا۔ وہ اس وقت پورے ہوش میں لگ رہا تھا۔ تاہم میری توقع کے عین مطابق اس کی دھیمی چال بتا رہی تھی کہ وہ اپنی بیوی کو جگانے سے بچنا چاہتا ہے۔ اس بچارے کے فرشتوں کو بھی خبر نہیں ہوگی کہ میں اس کا پہلے ہی پکا انتظام کر چکا تھا۔
اپنی بیوی کی نیند پکی ہونے کا اطمینان ہونے پر اس نے مسہری کے پاس پہنچ کر لحاف اٹھایا اور اپنی بیوی کے پہلو میں دراز ہونے کی کوشش کی۔ لیکن اس دوران میں گلاس نہ صرف لڑھک گیا، بلکہ اس میں موجود سرد پانی کسی زور دار چھپکے کی طرح اس کی بیوی کے چہرے سے ٹکرایا۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment