فیس بک نے برمی فوج کا پروپیگنڈہ پیج بند کردیا

نذر الاسلام چودھری
روہنگیا مسلمانوں کی نسل کشی، مسلم اقلیت کیخلاف نفرت پھیلانے اور عالمی حقائق کو جھٹلانے کی پاداش میں فیس بک انتظامیہ نے برمی مسلح افواج کے کمانڈر انچیف سمیت درجن بھر سینئر عسکری کمانڈرز کے اکائونٹس کو بند کر دیا ہے۔ جبکہ روہنگیائوں کیخلاف تمام نفرت انگیز مواد کو ان اکائونٹس سے حذف کیا جا چکا ہے۔ فیس بک کی جانب سے کئے جانے والے اقدامات کے نتیجے میں اب تک 18 فیس بک اکائونٹس، ایک انسٹا گرام اکائونٹ سمیت 52 فیس بک صفحات اور برمی افواج کے ملٹری چینل ’’میا وادی ٹیلی وژن‘‘ صفحے کو بھی صاف کر دیا گیا ہے، جہاں سے روہنگیائوں کیخلاف نفرت پھیلا کر ان پر مسلسل حملوں کی کال دی جارہی تھی۔ برطانوی جریدے ٹیلیگراف نے بتایا ہے کہ فیس بک کا اقدام اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کونسل کی عالمی رپورٹ کی اجرائی کے بعد سامنے آیا ہے، جس میں برما کی عسکری قیادت کو روہنگیا مسلمان کمیونٹی کیخلاف نسل کشی کا مرتکب ٹھہرایا گیا ہے اور برما کیخلاف عالمی پابندیوں کی سفارش کی گئی ہے۔ برمی جریدے میانمار ٹائمز نے بتایا ہے کہ برمی افواج کے کمانڈرز کی شدید ناراضی کو دیکھتے ہوئے برمی کٹھ پتلی سیاسی حکومت نے فیس بک سے ایک خط لکھ کر عسکری قیادت کے اکائونٹس بند کئے جانے پر تفصیلی وضاحت طلب کی ہے، جس پر فیس بک کی انتظامیہ نے صرف اتنا جواب دیا ہے کہ ہم نہیں چاہتے کہ ان اکائونٹس سے مذہبی اور نسلی منافرت پھیلائی جائے۔ اس فیس بک کی مختصر لیکن پُر اثر وضاحت پر ناراض سابق لیفٹیننٹ جنرل یو تھونگ آئے کا دعویٰ ہے کہ فیس بک نے برمی افواج کے اکائونٹس بند کرکے زیادتی کی اور یکطرفہ اقدام کیا ہے، حالانکہ برمی افواج روہنگیائوں کیخلاف مظالم کی تحقیقات میں مشغول تھیں۔ ادھر عالمی جریدے ایشین کارسپانڈنٹ کی تجزیہ نگار ایما رچرڈ نے بتایا ہے کہ فیس بک کو برمی افواج کے سینئر عہدیداروں کے اکائونٹس بہت پہلے ہی ڈیلیٹ کردینے جاہیئے تھے، لیکن اس کی انتظامیہ نے برمی افواج کے چیف آف آرمی اسٹاف سمیت سینئر حکام کے اکائونٹس کو برقرار رکھا ہوا تھا جہاں سے مستقل بنیادوں پر روہنگیائوں کیخلاف نفرت بھرا پروپیگنڈا اور تشدد کیلئے اکسایا جا رہا تھا۔ اسی پروپیگنڈے کے نتیجے میں برما میں ہزاروں روہنگیائوں کو منظم حملوں میں ہلاک کیا گیا تھا۔ برمی تجزیہ نگار تھونگ اوائی نے بتایا ہے کہ فیس بک کی جانب سے اعلیٰ عسکری جنرلز کے اکائونٹس اور صفحات کی بندش نے برمی فوجی کے پروپیگنڈے کا منہ بند کردیا ہے، جس کے برمی افواج اور اس کی پالیسیوں پر منفی اثرات مرتب ہوں گے ۔ادھر وائس آف امریکا نے اپنی رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ پیر کو اقوام متحدہ ہیومن رائٹس کونسل کی تین رکنی کمیٹی نے روہنگیائوں کی نسل کشی پر ایک مبسوط رپورٹ پیش کی اور براہ راست برمی افواج کو روہنگیائوں کی نسل کشی کا مرتکب قرار دیا اور 6 اعلیٰ عسکری کمانڈرز کو روہنگیائوں پر مظالم کا ذمہ دار ٹھہرایا، جس پر ٹٹ مادوو (مسلح افواج کا برمی نام) کے افسران اور جنرلز چراغ پا ہیں اور انہوں نے برما کی کٹھ پتلی سیاسی حکومت کی ایگزیکٹو آن سان سوچی کو سخت سخت سنائی ہیں۔ ایشین کارسپانڈنٹ نے تسلیم کیا ہے کہ فیس بک نتظامیہ نے اقوام متحدہ کی رپورٹ منظر عام کے تناظر میں انتہائی مجبور ہوکر یہ اکائونٹس بند کئے گئے ہیں جس کے بارے میں برمی جریدے ایراوادی کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ برمی عسکری حکام نے امریکی و عالمی پابندیوں کی نسبت فیس بک اکائونٹس کی بندش کو سراسر بے عزتی قرار دیا ہے اور فیس بک کی انتظامیہ کو کیلی فورنیا کے صدر دفتر میں بھیجے گئے ایک مراسلہ میں مطالبہ کیا ہے کہ برمی افواج کے قیمتی اکائونٹس کو فی الفور بحال کیا جائے لیکن فیس بک نے ایسے کسی ارادے سے لا علمی ظاہر کی ہے۔ برمی جریدے نے دعویٰ کیا ہے کہ امریکی حکومت اور فیس بک کی جانب سے برمی حکومت کو اتوار ہی کو مطلع کردیا گیا تھا کہ اگلے چوبیس گھنٹوں میں برمی افوا ج کے کمانڈر ان چیف منگ اونگ ہلانگ سمیت ایک درجن سینئر کمانڈرز کے فیس بک اکائونٹس کو بند کیا جارہا ہے لیکن آنگ سان سوچی نے دعویٰ کیا ہے کہ ان کو اس سلسلہ میں کوئی علم نہیں تھا اور نا ہی امریکی حکومت یا انٹیلی جنس یا فیس بک کی انتظامیہ نے ان کو مطلع کیا تھا کہ برمی فوج کے فیس بک اکائونٹس کو بند کیا جارہا ہے۔ ایک اعلیٰ سطحی سویلین افسرکا دعویٰ ہے کہ برمی افواج میں فیس بک اکائونٹس بندکئے جانے کے بعد شدید بے چینی پائی جارہی ہے، کیونکہ برمی افواج کے فیس بک اکائونٹس ہی ان کے نزدیک واحد موثر میڈیائی رابطہ تھا، جس کی مدد سے وہ ہم خیال گروہوں میں اپنے نظریات پھیلا سکتے تھے۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ فیس بک نے بھی تسلیم کیا ہے کہ ایک جائزہ اور فراہم کئے جانے والے ثبوتوں سے علم ہوتا ہے کہ برمی افواج اور مسلح برمی نسلی ملیشیائوں کو ان ہی فیس بک اکائونٹس سے کنٹرول کیا جارہا تھا اور روہنگیا مسلم کمیونٹی کیخلاف کئی برسوں سے ان اکائونٹس کو استعمال کیا جارہا تھا جس کے تحت گزشتہ دو برسوں میں روہنگیائوں کیخلاف اس قدر نفرت پھیلائی گئی کہ ان کو بنگلہ دیشی قرار دیا گیا اور ان کو مسلح جہادی اور دہشت گرد بنا کر ایسے پیش کیا گیا کہ 2016ء سے2017ء کے درمیان ایک لاکھ سے زیادہ روہنگیائوں کو بے دردی سے تہہ تیغ کردیا گیا، جس کے نتیجہ میں پندرہ لاکھ سے زیادہ روہنگیا مسلمان اپنے گھروں، جائیداد، کھیت کھلیان اور ماہی گیری و پروری کا تمام سیٹ اپ ترک کرکے بنگلہ دیش، تھائی لینڈ، مالدیپ، بھارت، ملائیشیا اور انڈونیشیا بھاگ نکلے۔ بنگلہ دیشی جریدے بنگلہ دیشی کرونیکل نے انکشاف کیا ہے کہ اس وقت کاکس بازار سمیت کُل پانچ بڑے کیمپوں میں نو لاکھ کے لگ بھگ روہنگیا پناہ لینے پہنچے ہوئے ہیں اور خانماں برباد ہیں۔ واضح رہے کہ گزشتہ ہفتے انتقال کر جانے والے اقوام متحدہ کے سابق سکریٹری جنرل کوفی عنان کی جانب سے روہنگیائوں پر مظالم کی تحقیقات اور شواہد اس رپورٹ میں شامل ہیں، جس کی تفصیلات بیان کرتے ہوئے اقوم متحدہ کے انسانی حقوق کونسل کے رکن کرسٹوفر سیدوتی کا کہنا تھا کہ روہنگیائوں کے ساتھ رخائن میں اور بودھ شہریوں کیخلاف کاچین اور شان ریاستوں میں بھی نسل کشی کا عمل کیا گیا ہے اور ان وارداتوں کے حوالہ سے اس قدر شواہد جمع کئے جاچکے ہیں کہ اب اقوام متحدہ کا انسانی حقوق کمیشن ان شواہد کو مزید کارروائی کیلئے دی ہیگ ہالینڈ کی عالمی عدالت انصاف میں بھیج رہا ہے۔ ادھر امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ نے بھی توثیقی اعلان کیا ہے کہ چھ عسکری کمانڈرز کو روہنگیائوں کیخلاف مظالم میں شامل ہونے اور سرپرستی کے الزام میں امریکی پابندیو ں کا سامنا ہوگا۔ ان عسکری حکام میں برمی افواج کے کمانڈر انچیف جنرل منگ آنگ ہلانگ شامل ہیں۔ ادھر اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل میں خطاب کے دوران برطانوی وزیر لارڈ طارق احمد آف ویمبلڈن ‘‘نے مطالبہ کیا ہے کہ عالمی برادری اور برطانیہ کو چاہئے کہ وہ روہنگیائوں کیلئے مزید عملی اقدامات کریں۔
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment